کیا لمبی د اڑھی کم عقلی کی دلیل ہے؟ان کے علاوہ بہت سے صحابہ رضوان اللہ عنہم اجمعین ہیں جن کی داڑھیاں بہت بھاری تھیں ۔اگر بڑی داڑھی مطلقاً کم عقل کی دلیل ہے تومعاذ اللہ یہ سب صحابہ رضوان اللہ عنہم اجمعین بے وقوف ہوئے۔خاص طور پر یہ ر سول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات بابرکات پر زبردست حملہ ہے،کیونکہ آ پ صلی اللہ علیہ وسلم کا داڑھی کٹانا بالکل ثابت نہیں ۔نہ حج عمرہ میں ،نہ آگے پیچھے حالانکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی داڑھی بہت بھاری تھی۔چنانچہ کتاب الشفاء ص 39 میں قاضی عیاض آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا حلیہ مبارک بیان کر تے ہوئے فرماتے ہیں :كث اللحية تملا صدره یعنی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی داڑھی اتنی بھاری تھی۔ کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی چھاتی کو بھرتی تھی پس یہ آخری فقرہ کہ جتنی داڑھی لممبی ہو،اتنی عقل کم ہوتی ہےیہ کسی کم عقل کا مقولہ ہے۔ہاں اگر اس سے عام داڑھی مراد نہ ہو بلکہ حد سے زیادہ لمبی مراد ہو جو ایسی شاذ وناز صورت ہے جیسے عورت کی داڑھی کا اگنا تو اس معنی سے یہ فقرہ صحیح ہوسکتا ہے۔اور اس لمبائی کااندازہ ملا علی قاری نے شرح شفاء جلد اول ص152 میں یہ لکھا ہے کہ داڑھی ناف پر پڑے۔ لیکن اس فقرہ میں اس قسم کی حد سے زیادہ لمبائی مراد ہو تو پھر یہاں اس کا ذکر بے موقع ہے کیونکہ یہاں دو چیزیں ہیں :ایک داڑھی کی ظاہری شکل اور ایک داڑھی والے شخص کی طبیعت کا تقاضا کہ داڑھی حد سے بڑھے۔ان دونوں سے کم عقل کا باعث کو ن سی چیزہے۔اگر ظاہری شکل باعث ہوتواس کے یہ معنی ہوں گے کہ اگر داڑھی چھوڑ دی تو عقل جاتی رہی۔اگر داڑھی کٹائی تو عقل واپس آگئی حالانکہ عقل کوئی ایسی آنی جانی شے نہیں کہ جب چاہو اس کواندر سے نکال دو اور جب چاہو اس کواندرداخل کردو۔اس سے صاف معلوم ہواکہ کم عقل کاباعث اگر ہوگا تو وہ طبعیت کاتقاضا ہے جو پیدائشی شے ہے اور ہر وقت ہے ۔خواہ داڑھی کٹائے یا نہ کٹائے اور یہاں بحث کٹانے یانہ کٹانے کی ہے۔تو پھر اس فقرہ کاذکر یہاں کس طرح صحیح ہوگا؟ علاوہ اسکے یہاں مٹھی سے زائد کٹانے کا ذکر ہے۔جوان داڑھیوں کو بھی شامل ہے جو بے حد لمبی نہیں تو پھر اس فقرہ سے یہاں اتنی لمبی داڑھی کی تخصیص کرنا کیا معنی رکھتاہے؟بہرصورت یہ فقرہ یہاں بے موقع ہے باقی عبارت کا مطلب واضح ہے کہ تابعین دو قسم پر ہیں :بعض قبضہ سے زائد کٹانے کے قائل ہیں اور بعض اس کو مکروہ سمجھتے ہیں ۔ حضرت حسن رحمۃ اللہ علیہ بصری کی رائے:ان سے ایک حسن بصری رحمۃ اللہ علیہ بھی ہیں ،پس حسن بصری رحمۃ اللہ علیہ کے دو قول ہوگئے۔ایک کٹانے کاایک نہ کٹانے کا یہ دونوں قول آپس میں متعارض ہیں اور تعارض کی صورت میں کوئی بھی پکڑنے کے قابل نہیں کیونکہ جب تعارض آگیا تو دونوں گرگئے" إذا تعارضا تساقطا " اس کے باجود اگر کسی کو لینا ہو ،تو ان دونوں میں سے جو بادلیل ہو،اس کو لینا چاہیے اور وہ دوسرا قول ہی ہے۔کیونکہ اس کی دلیل انہوں نے حدیث اعفواللحی پیش کی ہے ۔اور یہ بھی ہوسکتا ہے کہ پہلے قول میں |