للاحتراز عنه على هذه النية . قال النخعي : عجبت لرجل عاقل طويل اللحية كيف لا يأخذ من لحيته فيجعلها بين لحيتين أي طويل وقصير ، فإن التوسط من كل شيء أحسن ، ومنه قيل : خير الأمور أوسطها ، ومن ثم قيل : كلما طالت اللحية نقص العقل اه كلام الإمام(مرقاۃ:جلد 4 ص463) "امام غزالی کی کتاب احیاء العلوم میں ہے:داڑھی کے جو بال لمبے ہوجائیں ،ان کے متعلق کہا گیا ہے کہ اگر مٹھی سے زائد کاٹ دے تو کوئی حرج نہیں اور عبداللہ بن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ اور ایک جماعت تابعین نے ایسے کیا ہے اور عامر شعبی تابعی رحمۃ اللہ علیہ اور محمد بن سیرین تابعی رحمۃ اللہ علیہ نے اس کو اچھا سمجھا ہے۔اور حسن بصری تابعی رحمۃ اللہ علیہ اور قتادہ رحمۃ اللہ علیہ تابعی رحمۃ اللہ علیہ نے اور ان کے متبعین نے اس کومکروہ سمجھا ہے اور کہا کہ داڑھی کو سلامت چھوڑ دینا زیادہ محبوب ہے کیونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے:( أعفوا اللحى ) لیکن پہلا قول(مٹھی سے زائد کٹانے کا)ظاہر ہے کیونکہ حد سے لمبی داڑھی شکل کو بگاڑ دیتی ہے اور غیبت کرنے والوں کی زبانوں کو کھول دیتی ہے۔بس اس نیت سے لمبی نہ چھوڑنے میں کوئی حرج نہیں ۔ابراہیم نخعی تابعی رحمۃ اللہ علیہ (استاد امام ابو حنیفہ رحمۃ اللہ علیہ ) فرماتے ہیں ۔لمبی داڑھی والے عقل مند انسان پرمجھے تعجب ہوتا ہے کہ وہ ا پنی داڑھی کو درمیانی کیوں نہیں بناتا جو نہ زیادہ لمبی ہو نہ زیادہ چھوٹی۔کیونکہ ہر شے کی درمیان حالت بہت اچھی ہے۔اور اس بنا پر کہا گیا کہ جتنی داڑھی لمبی ہو،اتنی ہی عقل کم ہوتی ہے۔" صحابہ کرام رضوان اللہ عنہم اجمعین کی داڑھیاں لمبی تھیں :یہ آخری فقرہ تو ان صحابہ رضوان اللہ عنہم اجمعین پر بڑا طعنہ ہے جو حج عمرہ کے سوا بالکل نہیں کٹاتے تھے جیسے جابر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی حدیث میں گذر چکاہے۔حالانکہ بہت صحابہ رضوان اللہ عنہم اجمعین بھاری داڑھی والے تھے۔چنانچہ تاریخ خلفاء ص118 میں حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے حلیہ میں لکھا ہے:" عظيم اللحية جدا،قد ملأت ما بين منكبيه،" یعنی آپ کی داڑھی نہایت بہت بڑی تھی یہاں تک کہ دونوں کندھوں کے درمیانی جگہ کو بھر دیا تھا۔ اورص 106 میں حضرت عثمان رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے حلیہ میں لکھاہےکثیر اللحیۃ یعنی آپ کی داڑھی بہت تھی۔اورص 93 میں حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے حلیہ میں لکھا ہے:"وسَبَلَتُه كبيرة، وفي أطرافها صهبة،"یعنی آپ کی داڑھی بہت لمبی تھی اور اس کے کنارے سرخ مائل تھے اور شیخ عبدالحکیم رحمۃ اللہ علیہ مکی نے شمس الضحى في إعفاء اللحى نامی کتاب لکھی ہے جس میں فرماتے ہیں ۔ " كان ابو بكر كت اللحية وكان عثمان رقيق اللحية طويلها وكان علي عريض اللحية وقد ملاءت ما بين منكبيه." "حضرت ابو بکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ بھاری داڑھی والے تھے اور عثمان رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی داڑھی ہلکی تھی لیکن لمبی تھی اور حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی داڑھی اتنی پھیلی ہوئی تھی کہ کندھوں کا درمیان بھر دیاتھا۔" اس عبارت میں حضرت عثمان رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی داڑھی ہلکی لکھی ہے مگرمراد سے نسبتاً ہلکی ہے۔یعنی حضرت ابو بکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ اور حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے لحاظ سے ،ورنہ ابھی تاریخ خلفاء کے حوالہ سے گزرا ہے کہ وہ کثیر للحیۃ تھے۔ |