مسلمانوں خصوصاً دینی حلقوں میں اس سے جو اضطراب اور تشویش پیدا ہوئی ہے اس کا اِزالہ بے حد ضروری ہے۔ ٭... امریکی صدر بل کلنٹن کے دورۂ پاکستان کے کیا اثرات مرتب ہو سکتے ہیں ،ان کا پاکستان آنا پاکستان کے لئے کس قدر فائدہ مند ہو سکتا ہے؟ حافظ عبدالرحمن مدنی: صدر کلنٹن اگر یہاں مہمان کی حیثیت سے آتے ہیں تو خیر ہے۔ لیکن سپر پاور کے طور پر آئے تو اس حیثیت میں ان کاآنا پاکستان کے لئے نقصان دہ ہو سکتا ہے۔ سپر قوت کا زیردست قوت سے ملنا اچھی میزبانی نہیں ہو سکے گی۔ ہمارے ملک کو خود دار بننا چاہئے وہ مہمان کے طور پر آئے تو ان کو عزت دی جائے لیکن موقف میں ہرگز تبدیلی نہ لائی جائے۔ مجھے تو خدشہ ہے کہ وہ پاکستان پر دباؤ ڈال کر اسے مجبور کر کے اپنے مفادات حاصل کرنے کی کوشش کریں گے اور ہمارے حکمران دباؤ میں آ کر تھالی میں رکھ کر کچھ انہیں دے، نہ دیں وہ دن بڑا خوفناک ہو گا۔ پاکستان کے خوددار عوام ایک بات پر متفق ہیں کہ وہ امریکہ کی غلامی میں نہیں جانا چاہتے ۔خطرہ یہ ہے کہ پاکستان اپنے آپ کو غلام تصور نہ کر لے۔ سی ٹی بی ٹی پر دستخط کر دیئے تو غلامی بھی آ جائے گی۔ اللہ نہ کرے ہم وہ دن دیکھیں ۔ ویسے اگر امریکی صدر نہ بھی آئیں تو پاکستان کو اقتصادی طور پر بدحال کرنے کا کام ہو رہا ہے یہاں ورلڈ بینک اور آئی ایم ایف کے نمائندے بھرپور کردار ادا کر رہے ہیں ۔حکومت سٹیٹس کو کی کیفیت ختم کرے، اسلام کے بارے میں اپنا نقطہ ٔ نظر واضح کرے۔ عوام کی فوج کے ساتھ عقیدت کی وجہ یہ ہے کہ وہ اسے اسلامی فوج سمجھتے ہیں ۔ موجودہ پالیسی کے نتیجے میں ان میں مایوسی پھیل رہی ہے اگر یہ رویہ اسی طرح برقرار رہا تو لوگ مایوسی چھوڑ کر میدان میں آجائیں گے۔ ٭... آپ کی نظر میں کس حکومت کے دور میں نفاذِ اسلام کے سلسلے میں کام ہوا؟ حافظ عبدالرحمن مدنی: میرے خیال میں جنرل ضیاء الحق کے دور میں دینی فضا زیادہ بہتر انداز میں ہموار ہوئی۔ اس دور میں اسلام کے نفاذ کا سب سے زیادہ زور دار نعرہ لگایا گیا۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ اس کا مارشل لاء تحریک ِنظامِ مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کا نتیجہ تھا۔ ان سے قبل بھٹو کے دورمیں شراب کو ممنوع قرار دیا گیا حالانکہ انہوں نے خود اعتراف کیا تھا کہ وہ شراب پیتے ہیں ، اس طرح جمعہ کی چھٹی کا اعلان بھی بھٹو ہی کے دور میں ہوا۔ سب سے بڑھ کر قادیانیوں کو غیر مسلم اقلیت قرار دیا گیا۔ لیکن نواز شریف کے دور میں تمام کوششیں اسلام کے نفاذ کی بجائے اِقتدار کو مستحکم کرنے کے لئے کی گئیں ۔ دستوری ترامیم کی منظوری بھی حکومت کو دوام دینے کے لئے حاصل کی گئیں ۔ اقتدار میں آنے کے بعد سب سے پہلا اقدام انہوں نے جمعہ کی چھٹی ختم کر کے اتوار کی چھٹی کا اعلان کر کے کیا۔ اس سے ہٹ کر کہ اسلام میں چھٹی کا تصور |