Maktaba Wahhabi

54 - 79
یادرفتگاں مولانا عبدالوکیل علوی ممتاز عالم دین حافظ عبدالقادر روپڑی رحمۃ اللہ علیہ ﴿كُلُّ نَفسٍ ذائِقَةُ المَوتِ﴾ خالق کائنات کا اپنی مخلوق کے بارے میں یہ اَٹل اور سرمدی اصول ہے کہ ؎ ہر شے مسافر ، ہر چیز راہی کیا جن و انس ، کیا مرغ و ماہی ربّ ِکائنات کے طے شدہ منصوبے اور سوچے سمجھے پروگرام کے مطابق موت و حیات کا سلسلہ اَزل سے جاری ہے اور اَبدالاباد تک ساری رہے گا۔ وقت کا ہر لمحہ نہ جانے کتنی ہستیوں کے چراغِ حیات کو گل اور شمع زندگی کو بجھا دیتا ہے اور گلشن زندگی میں کتنے شگوفوں کو قبائے ہستی سے مزین کرتا ہے۔ موت زندگی کی سب سے بڑی حقیقت ہے۔ اس حقیقت سے کسی فرد بشر کو انکار نہیں ہے نیز ا س کے وقوع سے بھی کسی کے لئے مجالِ انکار نہیں ۔ اس لئے کہ یہ روز مرہ کے مشاہدات میں سے ایک ہے جس کو جھٹلانا ممکن نہیں ہے۔ ایسے وقت کسی صاحب ِعلم و عرفان کا موت کی آغوش میں چلے جانا موت العالِم موت العِلْم کا مصداق ہے۔ دین و شریعت کا نقصان و فقدان بھی علماءِ حقانی کے اُٹھ جانے ہی سے ہوتاہے۔ بڑے بڑے فقیہانِ اُمت، علماءِ کرام، زعماءِ امت اپنی طبعی عمر پوری کرکے یکے بعد دیگرے اس دنیا سے کوچ کرگئے۔ ان کے اُٹھ جانے کے بعد جو خلا اور کمی واقع ہوجاتی ہے، اسے پورا کرنا نہایت مشکل مسئلہ بن جاتا ہے، آج تک یہ خلا پر ہوتے نظر بھی نہیں آئے۔ہاں کچھ اور لوگ کسی اور رنگ میں اس خلا کی شدت میں کمی ضرورکردیتے ہیں … یہی کائنات کا نظامِ جاوید ہے! کیا اس سے انکار کیا جاسکتا ہے کہ ہر آنے والے نے جانا ہے؟ یہ بدیہی بات ہے جو اس دنیا میں آتا ہے جانے ہی کے لئے آتا ہے۔ ایسے ہی آکر جانے والوں میں برصغیر کے معروف و مشہور روپڑی خاندان کی ایک ہمہ اَوصاف شخصیت حافظ عبدالقادر روپڑی رحمۃ اللہ علیہ کی تھی جو کتاب اللہ اور علومِ اسلامی کے ممتاز عالم تھے۔ ان کے رگ و ریشہ میں اتباعِ سنت کا جذبہ کوٹ کوٹ کر بھرا ہوا تھا۔ دین حق کے شیدا اور سلفی عقیدہ کے علمبردار، ملک و ملت کے بہی خواہ، مسلم دنیا کے خیر خواہ، پاکستان میں اسلامی نظام کے نفاذ اور
Flag Counter