Maktaba Wahhabi

65 - 79
بلالی رضی اللہ عنہ نہیں رہی ۔ مجھے جب آسان ترجمہ پیش کرنے کی سعادت حاصل ہوئی جسے جناب حافظ نذر احمد حفظہ اللہ نے مرتب فرمایا تھااور دیگر علماء کی معیت میں بندۂ عاجز نے اپنی بے بضاعتی کے باوجود بتوفیقہ اس میں حصہ لیا تھا ۔ جناب حافظ عبد القادر رحمۃ اللہ علیہ نے ایک نظر دیکھنے کے بعد فرمایاکہ سورۂ یوسف کے چند الفاظ کا ترجمہ سنائیں مثلاً: بَثِّی : میری بے قراری ، حَرَضًا: بیمار ، اٰثرک: پسند کیا/فضیلت دی ، ضَلٰلِكَ الْقَدِیْم: پرانا وہم …ژرف نگاری کایہ عالم تھا کہ خوب تحسین فرمائی کیونکہ ترجمہ آسان ،عام فہم اور بفضلہ تعالیٰ منشائے ربانی کے قریب قریب تھا۔حاضر جوابی ایسی کہ ایک دفعہ تقریر کے دوران اقبال رحمۃ اللہ علیہ کے حوالے سے جب فرمایا کہ آگ آج بھی اندازِ گلستان پیدا کر سکتی ہے توکسی نے چٹ بھیجی کہ ہم آگ جلاتے ہیں ،آپ چھلانگ لگائیں گے، فوراً ہی جواب مرحمت فرمایا:’’تم نمرود بن کے آگ جلاؤ، میں ابراہیمی ایمان کامظاہرہ کرتے ہوئے چھلانگ لگادوں گا‘‘ ایک شخص نے نماز سے پہلے بلند آواز سے نیت کی تو اس پرفرمایا کہ ’’آپ کونیت یوں کرنی چاہئے تھی:دورکعت پیچھے اس امام کے اور دورکعت بعد میں اٹھ کر اکیلے ‘‘ کہنے لگا: بات تو ٹھیک ہے لیکن نام پوچھ کر کہنے لگا: مگرآپ کی بات نہ مانوں گا؟…تعلیم کے لیے مجمع کا انتظار نہ کرتے تھے۔ ((کلّموا الناس علی قدر عقولهم)) پر عمل پیرا رہتے۔ایک ایک لفظ دل ودماغ میں اترتاجاتا۔ ایک ایک فقرے میں معانی کا دریا بہاتے۔ کوزے میں دریا بند کرتے۔ ہم نے انہیں دیکھا،گلا پھاڑتے نہ دیکھا، ہاں گلے سے گلا ملاتے، گلہ دور کرتے ضرور دیکھا ۔ٹھیٹھ پنجابی بولتے ، اردو پر بھی کامل عبور تھالیکن تقریرپر کمالِ عبور کہ زبانیں ہاتھ کی چھڑی یا گھڑی کی طرح ہاتھ باندھے کھڑی رہتی تھیں۔ سوچ بچار کا مسئلہ نہ تھا۔کہ اللہ کریم نے کمال کا حافظہ دیاتھا۔نوکِ زبان پر جواب دیتے جیسے لالہ وگل کھلے پڑ رہے ہوں ۔ نباض تھے ،لفاظ نہ تھے ۔ لوگوں کو گنگ کر دیتے کہ یہ اللہ نے کمال بخشا تھا۔ہر ایک سے سلوک شایانِ شان کرتے ۔جیسے بادشاہ بادشاہوں سے سلوک کرتے ہیں ۔ توحید پر استقامت کایہ عالم تھا کہ روانی میں فرما گئے کہ رسالتماب صلی اللہ علیہ وسلم نے حدیث ِپاک کے ذریعے ایسی تربیت کر دی ہے کہ بڑے سے بڑامتنبی بھی شرک کے لیے کہے تو اللہ کے فضل سے ردّ کر دیں گے ۔ بشری خامیاں اور کوتاہیاں بہر حال ہوتی ہیں ۔حافظ صاحب نبی علیہ السلام تھے نہ صحابی رضی اللہ عنہ ،لیکن علمائے دین رحمہم اللہ کی صف میں ایک ممتاز مقام کے حامل نظر آتے ہیں ۔ ان کی ایک مجلس میں جو فیض ملتا تھا وہ کتابوں کے اَنبار سے بھی ملنا ممکن نہیں ۔ کیوں کہ اللہ نے صاحب ِکتاب کوپہلے بھیجا اور نزولِ کتاب بعد میں کیا ۔اسی لیے قرآن دیکھیں تو رسول خُلُقُه الْقُرآن کا حامل نظر آتا ہے ۔اگر رحمت للعالمین کی ذاتِ اقدس کو دیکھیں تو یو ں محسوس ہوتا ہے جیسے قرآن مجسم سیرتِ اسوۂ حسنہ بن گیا ہے ۔
Flag Counter