Maktaba Wahhabi

64 - 79
بعد علامہ فہمامہ کہلوانے کاجو جنوں آج کل چڑھا ہوا ہے، وہ اس سے کوسوں دور تھے ۔نفاق نام کو نہ تھا۔لگی لپٹی بغیر کہہ دیتے لیکن ادب واحترام یا شفقت کے تقاضوں کو ہمیشہ ملحوظ رکھتے ۔ دل شکنی سے کوسوں دور تھے ۔خشونت نام کو نہ تھی جسے آج کل بڑوں کا طرۂ امتیاز گردانا جاتا ہے ۔ بشری خامیوں اور کوتاہیوں سے کسی کومفر نہیں ، لیکن دوسروں کے عیب اُچھالنا بھی تو علماء کی شان کے شایان نہیں ۔ہمارے ہاں بعض جہلاء کو مسئلہ سمجھ نہ آئے تو کیچڑ اچھالتے ہیں ۔ یا یوں کہہ دیناکہ حافظ عبد القادر کوئی پیغمبر تو نہیں ۔بالکل ٹھیک ٹھاک ، بجا فرمایا کہ حافظ صاحب پیغمبر تو نہ تھے لیکن جس طرح انہوں نے رسولِ امین کے جانشین ہونے کاحق ادا کیا، کیا ہم اس کا عشر عشیر کرنے کا بھی سوچ سکتے ہیں ؟ ذرا گریبانوں میں جھانک کر دیکھیں ۔کس میدان میں حافظ صاحب پیچھے تھے ، انہوں نے تو کبھی کسی پر زبانِ طعن دراز نہ کی ، کہ وہ اندر سے بھی خارجی تھے نہ بد باطن۔ہمیشہ مدلل باحوالہ گفتگو کی ۔ چہرے پر یقین کا ایسا جمال اور دلائل کا ایسا جلال تھا کہ مد ِمقابل تحسین کئے بغیر نہ رہتا۔ جامع قدس کا انتظام ہو یا تنظیم اہلحدیث کی نگرانی اور اشاعت، طلبہ کے قیام وطعام کابندوبست ہو یا دیگر ضروریات کا مہیا کرنا ، مہمانوں کا استقبا ل ہو یا مہمان نوازی سب حسب ِمراتب خوش دلی سے انجام دیتے ۔شہر لاہور میں کہیں کوٹھے آباد ہونے کاپتہ چلتا،جواریوں کے تباہی پھیلانے کی خبر ملتی تو فوراً ایس ۔ایس ۔پی صاحبان کوفون کرتے کہ ’’تم ہی امت ِمسلمہ کے ذمہ دار ہو ،جاگو کہ اندھیرے میں مال وجان کے ساتھ لوگوں کی آبرو لٹ رہی ہے ،تم غفلت میں پڑے ہو اور شہر میں بدمعاشی ہور ہی ہے، اللہ کو روزِقیامت کیاجواب دو گے؟‘‘ ایک لمحہ ٹھہر کر ذرا سوچئے کہ یہ احساسِ جواب دہی کس میں ہے اور کونسا خطیب ِشہر ہے جو کوتوال کو بھی جگائے! یہاں تو وعظ کے بعد خطباء اور سامعین سوئیں تو چاشت کی خبر لائیں اور ایسے واعظوں کو اب کہاجاتا ہے مہربانی کر کے آئندہ ایسا بے عملی کا وعظ کرنے ہمارے ہاں تشریف نہ لائیں ! إنا للَّہ وإنا إلیه راجعون روپڑ کی ایک مسجد میں خطبہ شروع کرتے ہی کفا رکا عمل دہرایاگیا تو حافظ صاحب کی زبان سے گالیاں نکلیں نہ بددعائیں ، نہ آپے سے باہر ہوئے ،نہ تبرا بولا ،نہ زبانِ طعن دراز کی کہ ایسے وقت میں ہی بندے کا کردار نکھر کر سامنے آتا ہے ۔آپ تھے ہی حلم وتحمل کا مجسمہ۔چوہدری صدیق مرحوم کہا کرتے تھے کہ مجھے وہابیوں کی مسجد جڑ سے اکھاڑنے کا جنون تھا لیکن حافظ صاحب مرحوم کے دلائل اور مخلصانہ اندازِ دعوت نے جھاگ کی طرح بٹھا دیا ،بلکہ راہِ راست پر لگا دیااور وہ ان مساجد کے محب بن گئے تھے ۔ حافظ صاحب میں مداہنت نام کو نہ تھی، جس کسی سٹیج سے بولے، حق ہی بولے ۔قرآن پڑھنے کا اپنا ہی ایک روپڑی سٹائل تھا۔ سادہ لیکن دل موہ لینے والاانداز،ہیکیں لگاتے تھے نہ قرآن کو گاتے تھے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے گا کر قرآن پڑھنے سے منع فرمایا تھا۔اسی لیے آج کے واعظ میں روحِ
Flag Counter