دعوت دینے کی دیرہوتی اور حافظ صاحب فوری تیار ،ساتھ ہی چل پڑتے کہ جانشین رسولِ امین ہونے کاحق اسی طرح ادا ہوتا ہے ۔بیماری میں کوہِ ہمالہ سے زیادہ صبر کا مجسمہ کہ صبر ایوبی علیہ السلام کی مثال سامنے آتی ۔ یہ میرے لیے اعزاز ہے کہ میں اس مردِ دانا کی عظمت کے گن گاؤں کہ جس کی تربیت سے آج کہنے ، سننے اور لکھنے کے اہل ہوئے ۔اللہ انہیں اب انبیاء کے تاجدار جناب محمد صلی اللہ علیہ وسلم کا جنت میں ساتھ نصیب فرمائے ۔اور ہمیں ان کے بعد اندھیروں میں شمع حق روشن رکھنے کی توفیق دئے رکھے ۔آمین ! درویشی میں شہنشاہی حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ کی ذات کے حوالے سے کسی غیر مسلم مفکر نے تجزیہ کرتے ہوئے لکھا تھا کہ ہمہ جہت شخصیت تھی، اس لیے کہ جناب عمر رضی اللہ عنہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت ِاقدس کا عکس لیے ہوئے تھے۔فرمانِ ربانی کے مطابق یقینا ہمارے لیے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی میں بہترین نمونہ موجود ہے ۔یہ نمونہ ہمارے لیے جب ایک عالم با عمل کی شکل اختیار کرتا ہے تو بنی اسرائیل کے انبیاء کی مانند نظر آتا ہے ۔ اوربقولِ اقبال ع ’’نظر آتا ہے قاری ، حقیقت میں ہے قرآن ‘‘…ایسا سوچ لینا تو آسان ہے لیکن اس کے مصداق بن کر دکھانا جوئے شیر لانے مترادف ہے۔یہود بے بہبود کو اسی لیے پھٹکار پڑی کہ کہتے کچھ اور کرتے کچھ تھے ،عالم با عمل پھر مجسمہ ٔحلم کہ شیوۂ پیغمبری ہے کہاں سے ایسا لاؤں !! کردار کی اصل جھلکیاں تو وہی ہوں گی جو عملی زندگی میں صرف اللہ کے بندے بن کر رہے اور اسی کی راہ میں ساری زندگی بتا دی۔ اس صدی کی عظیم روحانی، عالمی اورعلمی شخصیت حافظ عبدالقادر روپڑی رحمۃ اللہ علیہ کہ اپنی مثال آپ تھی ۔جناب حافظ عبد القادر روپڑی رحمۃ اللہ علیہ …ایک عہدساز شخصیت،سینکڑوں نہیں ہزاروں پر بھاری ، امت ِقانت کی تفسیر ،سادگی کا مرقع حافظ صاحب سادہ لباس پہنتے۔ ہمیشہ کرتا لنگی پہنی، سر پر کلاہ رکھا، کج کلاہ بننے سے محفوظ رہے ۔ زمین پر بیٹھ کر کھانے میں عار نہ تھی ۔گفتگو میں شیرینی ، اگرچہ انتہائی سادہ لیکن مدلل اندازجس سے سننے والے پر کسی قسم کابوجھ نہ پڑتا۔ تقریر کرتے تو روانی ہوتی او رسامعین ساتھ ساتھ شیریں بیانی سے متاثر بد عقائد سے توبہ کرتے چلے جاتے ۔ دور دور سے کھنچے چلے آتے۔وہ تھے بھی ایسے ہی سنگ ِپارس کہ جو سنگ لگے توسونابن گئے، سنگدلی دور ہوجائے ۔ ناواقف پہلی بار اندازہ بلکہ یقین نہ کر پاتا کہ یہی معروفشخصیت ہیں حافظ عبد القادر رحمۃ اللہ علیہ ! لیکن جب قادر الکلامی سے دین کے موتی بکھیرتے، مشامِِ جاں کومعطر کرتے تو ہزار جان سے دِل صدقے صدقے ہو جاتا۔ان کی مجلس میں یا وہ گئی ہوتی نہ بیہودہ گوئی کہ آج ہماری مجلسوں کا یہی وطیرہ بن گیا ہے ۔ حافظ صاحب کی مجلس عطار کی مجلس تھی کہ خودبخود ہی جاہل کو بھی علم سے وافر حصہ مل جاتا۔ او رمشامِ روح بھی معطر ہو جاتے ۔ جناب حافظ عبد القادر روپڑی رحمۃ اللہ علیہ میں نہ تو یبوست تھی، نہ ہی زیادہ نرمی۔ عموماً چار کتابیں پڑھنے کے |