چھوٹوں سے محبت اور پیار کرنے والے۔ حاجتمند اور ضرورت مند طلباء کی دل کھول کر مدد کرنے والے، دینی تعلیم حاصل کرنے والے طلباء کے خیر خواہ، ہمدرد ، غمگسار اور ان سے قلبی انس رکھنے والے۔ میرے ساتھ حافظ صاحب مرحوم کا بہت ہی خیر خواہی اور ہمدردی کا تعلق تھا۔ میرا احترام بھی کرتے تھے اور محبت بھی۔ اس کی وجہ ایک تو میرے اور ان کے خاندانی روابط تھے، دوسرے مجھے اپنی تعلیم سے گہری دلچسپی اور لگاؤ تھا۔ میں اپنا زیادہ تر وقت حصولِ تعلیم میں صرف کرنے والا طالب علم تھا گویا علم دوستی ہمارے دونوں کے درمیان واسطہ تھی۔ حافظ صاحب پکے سلفی العقیدہ تھے اپنے مسلک میں لچک کے قائل نہیں تھے مگر دوسرے علماء و محققین کے قدر دان بھی تھے۔ مسلکی اختلاف کے باوجود اتحاد کے لئے ان کے پاس جانے سے بھی گریز نہیں کرتے اور نہ کوئی عار محسوس کرتے تھے۔ مندرجہ ذیل دو واقعات سے اس کی تصدیق ہوتی ہے: ایک مرتبہ غالباً پنڈی میں پیر دیول شریف نے مختلف مکاتب ِفکر کے علماء و زعماء کو اپنے ہاں آنے کی دعوت دی۔ کوئی خاص مسئلہ تھا جس پر وہ مختلف علماء کی آراء لینا چاہتے تھے۔ ا س وقت حافظ عبداللہ روپڑی حیات تھے ۔ محترم حافظ عبداللہ محدث روپڑی اور حافظ عبدالقادر روپڑی پیر صاحب کی دعوت پر ان کے ہاں تشریف لے گئے۔ واپسی پر میں نے خود سنا کہحافظ عبداللہ روپڑی نے فرمایا کہ پیر صاحب ، صاحب ِعلم ہیں ۔ اس سے واضح ہوتا ہے کہ ایک صاحب ِعلم کے نزدیک دوسرے صاحب ِعلم کی فضیلت بیان کرنے میں کشادہ قلبی چاہئے۔ دوسرا موقعہ صدر ایوب کے دور کا ہے۔ جب صدر ایوب نے فیملی لاز نافذ کئے، فیملی لاز پر تنقید و تبصرہ کرنے کے لئے مولانا سید ابولااعلیٰ مودودی رحمۃ اللہ علیہ نے بھی مختلف علماء کو اپنے پاس اچھرہ میں تشریف لانے کی دعوت دی۔ چنانچہ میں استاذِ محترم حافظ عبداللہ محدث روپڑی اور حافظ عبدالقادر روپڑی کو خود لے کر اچھرہ گیا۔ مولانا مودودی رحمۃ اللہ علیہ صاحب نے کھڑے ہو کر حافظ صاحب کا استقبال کیا اور تنقیدی مسودہ ان کے سامنے رکھا کہ حافظ صاحب اپنی رائے سے مطلع کریں ۔ مجھے یاد ہے حافظ عبداللہ مرحوم نے ایک مسئلہ سے اختلاف کیا تو مولانا مودودی نے کہا: آپ بخوشی اس پر اپنا اختلافی نوٹ لکھ دیں ۔ چنانچہ حافظ صاحب نے وہ اختلافی نوٹ لکھ دیا۔ مولانا مودودی نے بعض عبارت کو درست بھی کیا۔ اسی طرح ایک مرتبہ مولانا مودودی نے گلبرگ میں منکرین حدیث کے خلاف تقریر کرنا تھی مجھے یاد ہے کہ میں ، حافظ عبدالقادر روپڑی اور جناب محمد صابر (محمد رفیق عارف ایڈووکیٹ کے بڑے بھائی ) اس اجتماع میں شریک تھے۔ مولانا مودودی رحمۃ اللہ علیہ نے بڑی جامع علمی تقریر کی۔ اجتماع کے اختتام پر جب ہم واپس جارہے تھے تو حافظ عبدالقادر صاحب نے کہا: ’’مولانا مودودی نے آج جو علمی اور معلومات افزا |