ڈالتے رہے اور کئی مواقع پر تو کلیدی کردار ادا کیا۔ بالخصوص تحریک ِختم نبوت میں مولانا مفتی محمود ، سید ابوالاعلیٰ مودودی، مولانا عبدالستار خان نیازی وغیرہ کے ہمراہ حضرت حافظ صاحب نے بھی نہایت جاندار اور شاندار رول ادا کیا تھا۔ اسی طرح بھٹو دور میں اٹھنے والی تحریک ِنظامِ مصطفی میں بھی پوری سرگرمی سے حصہ لیا۔ اس دوران میں حافظ صاحب گرفتار بھی ہوئے۔ ایک ماہ کا عرصہ لاہور جیل میں گزارا اور ایک ماہ پنڈی اور میانوالی جیل میں رہے۔ حافظ صاحب کے جیل کے ساتھیوں میں سے راجہ ظفر الحق اور جماعت اسلامی پاکستان کے نائب امیر چوہدری رحمت الٰہی قابل ذکر ہیں ۔ حافظ صاحب مرحوم جامع مسجد القدس کے خطیب تو تھے ہی، ساتھ ہی دینی درسگاہ کے منتظم بھی تھے اور مسلک ِاہلحدیث کے ترجمان رسالہ ’’تنظیم اہلحدیث‘‘ کے نگران بھی رہے۔ حافظ عبداللہ محدث روپڑی کی وفات کے بعد شیخ الحدیث حافظ ثناء اللہ مدنی کے تعاون سے دارالافتاء کی نگرانی کے فرائض بھی انجام دیتے رہے۔ ماشاء اللہ اب تک تنظیم اہلحدیث دین کی اشاعت میں پوری طرح حصہ لے رہا ہے اور درسگاہ میں علومِ اسلامیہ کی تعلیم جاری ہے۔ اللہ کرے یہ سلسلہ تادیر اسی طرح بلکہ اس سے بھی بہتر صورت میں جاری و ساری رہے۔ آمین! اللہ تعالیٰ کی عطا کردہ صلاحیتوں اور قابلیتوں کا حافظ صاحب مرحوم نے صحیح استعمال کیا اور ان کا حق ادا کرنے سے دانستہ کوتاہی نہیں کی۔ یہی چیز انہیں صدر ضیاء الحق مرحوم کے دور میں ان کی نامزد شوریٰ میں لے گئی بلکہ وہ ان کے ۱۱/مشیروں میں شامل تھے۔ اس کے علاوہ وفاقی شرعی عدالت کے مشیر اور مرکزی رؤیت ِہلال کمیٹی کے رکن بھی رہے۔ یہ ذمہ داری بھی انہوں نے دیانتداری اور پوری ذمہ داری سے نبھائی۔ تبلیغ دین میں کبھی مداہنت سے کام لینے کی کوشش نہیں کی۔ محراب و منبر پر ہوتے تو کتاب اللہ اور سنت ِرسول صلی اللہ علیہ وسلم کی بات کرتے۔ میدانِ مناظرہ میں اترتے تو اسلام کی صحیح ترجمانی کرتے، نظریات و افکار کی درستگی کی کوشش کرتے۔ قید و بند کی دنیا میں رہے تو بھی دین کی تبلیغ اور اصلاحِ اَحوال میں مگن رہتے۔ شہری آبادی سے مخاطب ہوتے تب بھی، دیہاتی بھائیوں سے گفتگو کی تو بھی دین اسلام کی حقیقی تعلیم سے ہی سروکار رکھا۔ اس اعتبار سے حافظ صاحب کی تبلیغی خدمات کا دائرہ بہت وسیع او رپھیلا ہوا ہے۔ اندرونِ ملک اور بیرونِ ملک مختلف کانفرنسوں ، جلسوں اور مناظروں میں شریک رہے۔ دینی درسگاہوں اور جامعات میں بھی درسِ قرآن و حدیث دیتے رہے۔ اللہ تعالیٰ نے حافظ صاحب کو بہت سی خصوصیات سے نوازا تھا۔ عالم دین اور حافظ ِقرآن ہونے کے ساتھ حالاتِ حاضرہ پر بھی نظر رکھتے تھے۔ شیریں بیان، خوش الحان اور بذلہ سنج طبیعت کے مالک تھے۔ خشک مزاجی تھی مگر اپنی حد کے اندر ۔ دوستوں کے دوست، بڑوں کا احترام کرنے والے اور |