Maktaba Wahhabi

58 - 79
لئے مہمیز کا کام دیتے ہیں ۔ اللہ تعالیٰ کے خصوصی فضل و کرم اور احسان سے پاکستان کے نام کی ایک مسلم ریاست دنیا کے نقشہ پر ثبت ہوگئی۔ تحریک ِآزادی کے لئے کام کرنے والوں کی امید برآئی۔ حافظ صاحب اپنے خاندان کے ہمراہ پاکستان آگئے۔ اسی اثناء میں حافظ صاحب مرحوم کے خاندان کے سترہ افراد اَمرت سر میں سکھوں اور ہندو بلوائیوں کے ہاتھوں جامِ شہادت نوش کرگئے۔ یہ جانکاہ سانحہ اور عظیم حادثہ بھی انہوں نے برداشت کیا جو بڑے حوصلہ کی بات ہے ۔ یہاں آکر بھی یکے بعد دیگرے حادثات سے دوچار رہے۔ ان کی زندگی ہی میں ان کے استاذِ مکرم حافظ محمد عبداللہ روپڑی، چچا حافظ محمد حسین ، بڑے دو بھائی جن میں حافظ محمد اسمٰعیل خاص طور پر قابل ذکر ہیں ، وفات پاگئے۔ ان کی خوش دامن حافظ عبداللہ مرحوم کی اہلیہ او ران کی اپنی اہلیہ بھی داغِ مفارقت دے گئیں ۔ آخر میں ان کے چھوٹے بھائی حافظ احمد مرحوم بھی اس دنیا سے رخصت ہوگئے۔ اللہ تعالیٰ نے ان صدمات کو سہنے کا حوصلہ دیا اور اسی کے احسان و فضل کی بدولت حافظ عبدالقادر نے سب کچھ برداشت کیا۔ پاکستان میں آنے کے بعد اس خاندان نے پاکستان کے مشہور علمی، تہذیبی و ثقافتی شہر لاہور کے معروف علاقے ماڈل ٹاؤن میں رہائش اختیار کی اوریہاں دینی، علمی اور سیاسی سرگرمیوں میں مصروف ہوگئے۔ اس سے قبل چوک دالگراں کے ساتھ رام گلی میں بڑی جدوجہد، کاوش اور سخت محنت کے بعد تعمیر مسجد و مدرسہ کے لئے جگہ حاصل کرنے میں کامیاب ہوئے۔اس کے حصول میں بڑی مزاحمت سے دوچار ہونا۔ بہرحال مَنْ جَدَّ وَجَدَ جو کوشش کرتا ہے آخر پالیتا ہے۔ ابتداء ً چھوٹی سی مسجد تعمیر کی اور اس میں خطابت کے فرائض انجام دینا شروع کئے۔ آج یہ مسجد اپنے دامن کو اتنا وسیع اور کشادہ کرچکی ہے کہ ہزاروں نمازی آسانی سے نماز ادا کرسکتے ہیں ۔ اور دینی مدرسہ بھی شب و روز تشنگانِ علم کی پیاس بجھانے میں مصروف نظر آتا ہے۔ دعا ہے کہ ربّ ِکائنات اس مدرسہ کو دن دگنی اور رات چوگنی ترقی سے ہمکنار کرے۔ آمین! جس مسجد میں خطابت کے فرائض ادا کرتے رہے، اس کا نام مسجدالقدس ہے۔ یہ مسجد چوک دالگراں میں مغرب کی طرف رخ کرکے کھڑے ہوں تو دائیں جانب شمال میں واقع ہے۔ جب تک صحت نے ساتھ دیا، یہ فرائض انجام دیتے رہے جب بیماری کے ہاتھوں نڈھال اور لاچار ہوگئے تو یہ سلسلہ جاری نہ رکھ سکے۔ حصولِ پاکستان کا جو نصب العین اور حقیقی مقصد پاکستان کا مطلب کیا لااله الا اللَّه تھا، اس کو عملاً معاشرے کے تمام اداروں میں نافذ ہوتا دیکھنے کے لئے زندگی بھر علمی، اَخلاقی او رسیاسی جدوجہد میں مصروف رہے۔ چنانچہ اس سلسلہ کی جتنی تحریکیں پاکستان میں اٹھتی رہیں ، ان میں حتیٰ المقدور اپنا حصہ
Flag Counter