Maktaba Wahhabi

57 - 79
خوب نوازا تھا۔ مدمقابل کی چالوں کو سمجھنے کی خداداد اہلیت رکھتے تھے ۔بڑے حاضر جواب تھے۔ مناظرے کے تمام داؤ وپیچ سے بخوبی آگاہ تھے۔ مد ِمقابل کی علمی کمزوریوں سے بھی پوری طرح آگاہ اور باخبر رہتے تھے۔ مناظرے سے ان کے سامنے حقیقت کشائی کے سوا اور کچھ نہیں ہوتا تھا تاکہ ناواقف لوگ حقیقت شناس ہوجائیں اور اپنی راہ کھوٹی نہ کر بیٹھیں ۔ حافظ صاحب کا دینی، مسلکی اور علمی خدمات کا دائرہ بہت وسیع ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ سیاست ِملکی میں بھی ان کی خدمات کا حصہ بڑا وافر ہے۔ انہوں نے تحریک ِپاکستان میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیا اور قیامِ پاکستان کے لئے نمایاں کردار ادا کیا۔ مسلم لیگ جو اس وقت مسلمانانِ برصغیر کی نمائندہ تنظیم تھی، کے ساتھ شامل ہو کر قابل قدر کام کیا۔ روپڑ مسلم لیگ کے بھی آپ صدر رہے۔ مسلم لیگ کے بڑے بڑے سیاسی جلسوں اور اجتماعات میں فکر انگیز تقریریں کیں ۔ موصوف نے روپڑ میں اتنا زور دار کام کیا کہ یہاں کے ووٹروں کی تقریباً پندرہ ہزار تعداد میں سے صرف ایک ووٹ مخالف کیمپ کی طرف گیا۔ چودہ ہزار نو سو ننانوے ووٹ مسلم لیگ کو ملے۔ ظاہر ہے کہ یہ حافظ صاحب کی مساعی اور شب و روز کی انتھک جدوجہد اور کاوش کا ثمرہ تھا۔ ا س دینی، تبلیغی، تنظیمی اور سیاسی جدوجہد میں ان کے بڑے بھائی حافظ محمد اسمٰعیل مرحوم بھی پیش پیش تھے۔ حافظ محمد اسماعیل مرحوم کو اللہ تعالیٰ نے خطابت کا مسحور کن فن عطا کیا تھا۔ اس کی بنا پر وہ اپنے سامعین کے دلوں کی دنیا پر حکمرانی کرتے تھے، شیریں بیان تھے۔ سامعین کے مزاج شناس اورموقع ومحل کے مطابق گفتگو کا خداداد سلیقہ اور شعلہ بیانی ان کے امتیازات میں سے ہے۔ جوں ہی مجمع میں تقریر و خطاب کا آغاز کرتے، سامعین پر سکوت کا عالم طاری ہوجاتا۔ آواز میں بڑی شیرینی اور لطافت تھی۔ گفتگوسوز و گداز سے بھی لبریز ہوتی۔ قرآنِ مجید کی تلاوت کرتے تو سننے والے بڑے محظوظ ہوتے۔ اگرچہتلاوت میں سادگی تھی، تصنع نام کی کوئی چیز نہ ہوتی تھی۔ رمضان مبارک عموماً کراچی میں گزارتے اور وہیں نمازِ تراویح میں قرآن پاک سناتے تھے۔ ان کی علمی، اَخلاقی تربیت بھی حافظ عبداللہ محدث اور حافظ محمد حسین مرحوم کے زیر سایہ ہوئی تھی۔ جیساکہ اوپر اشارہ کیا گیا کہ حافظ عبد القادر روپڑی نے تحریک ِپاکستان میں نمایاں حصہ لیا تھا۔ آزادی کی تحریک میں نمایاں حصہ لینے کی وجہ سے ہندکی حکومت نے ان کو پابند ِسلاسل کرکے پس دیوارِ زندان ڈال دیا۔ ہوا یوں کہ وہ جمعتہ المبارک کے عظیم اجتماع سے خطاب کے بعد جلوس کی شکل میں باہر نکلے تو انہیں گرفتار کر لیا گیا اور اَنبالہ جیل میں محبوس کردیاگیا۔ انہوں نے جیل میں پیش آمدہ مشکلات و مصائب اور اذیتوں کو بڑے حوصلے اور خندہ پیشانی سے برداشت کیا اور ثابت کردکھایا کہ بندۂ مؤمن کو یہ مصائب و آلام بزدل اور کم ہمت نہیں بنا سکتے بلکہ ایسے حالات تو سچے اور پکے مسلمان کو اوپر اڑانے کے
Flag Counter