بڑھتے بڑھتے یہ پودا آج ایسا شجر سایہ دار بن چکا ہے جس سے بے شمار لوگ استفادہ کر رہے ہیں اور آخر تک کرتے رہیں گے۔ان شاء اللہ حافظ عبدالقادر روپڑی نے اپنے محترم چچا (حافظ عبداللہ روپڑی) جو مرحوم کے سسر بھی تھے سے تعلیم حاصل کی۔ حافظ عبداللہ روپڑی اپنے وقت کے جید عالم دین اور فقہاءِ اہلحدیث کے نمایاں فقیہ اور مانے ہوئے مفتی تھے۔ ان کے فتاوے، فتاویٰ اہلحدیث کے نام سے ۳ جلدوں میں مطبوعہ موجود ہیں ۔ ان فتوؤں سے ان کی تبحر علمی اور فقاہت کا پتہ چلتا ہے۔ موصوف نے دینی علوم سے فراغت کے بعد مولانا محمد حسین بٹالوی رحمۃ اللہ علیہ کی ہدایت پر اس وقت کے انبالہ ضلع کے ایک قصبہ (حال ضلع روپڑ) میں ایک سلفی درسگاہ قائم کی۔ اسی درسگاہ کے لائق و فطین طالب ِعلم حافظ عبدالقادر روپڑی بھی تھے۔ اپنے لائق اور قابل ترین استاذ کی آغوش تربیت میں رہ کر علمی فیض حاصل کیا اور کندن بن نکلے۔ درسِ نظامی کی تکمیل میں غالبا ً۷ سال صرف کئے۔ اس وقت آپ کی عمر ۱۶ سال کے لگ بھگ ہوگی۔ ا س سے پہلے جب ان کی عمر دس برس کی تھی تو دو سال میں قرآنِ مجید مکمل طو ر پر ازبر کرلیا تھا جو ان کی غیر معمولی دلچسپی اور گہرے قلبی لگاؤ کی نشان دہی کرتی ہے او ران کے ذہن و فطین ہونے کی دلیل ہے۔ ضمناً یہ با ت بھی بیان کر دی جائے کہ ایک وقت وہ بھی تھا جب ا س خاندان کے تمام مرد و خواتین حفظ ِقرآن کی نعمت سے بہر ور رہے۔ یہ ایسی لازوال نعمت ہے جسے مل گئی اور وہ اس کے تقاضے اور مطالبے بھی حتیٰ الوسع پورے کرتا رہا، اس کیلئے دنیا میں بھی سرخروئی و کامرانی اور آخرت میں فوز و فلاح اور کامیابی کی ضمانت و بشارت! حافظ صاحب جس دور میں حصولِ تعلیم میں مصروف و مشغول تھے، وہ دور مناظروں کا تھا۔ عیسائی مشنریوں نے ہر سو اودھم مچا رکھا تھا۔آریہ سماج الگ سے بپھرے ہوئے تھے۔ قادیانی (متنبی) نے الگ سے اپنی دکان سجا رکھی تھی اور مسلمانوں کو کافر قرار دے کر ان سے مذہبی، ثقافتی اور معاشرتی تعلقات منقطع کر رکھے تھے۔ عوام الناس کو فریب اور دھوکہ سے اسلام سے دور کیا جارہا تھا۔ سادہ لوح لوگ ان کے جال میں پھنسنے لگے تھے۔ منکرین حدیث کے گروہ نے حدیث ِرسالت مآب صلی اللہ علیہ وسلم میں شکوک و شبہات ڈال کر عام لوگوں کو گمراہ کرنے کی کوششیں شروع کی ہوئی تھیں ۔ ان سب دین بے زار اور دین سے دور نکلے ہوئے گروہوں کے پیدا کردہ شکوک و شبہات کو عوام الناس کے سامنے علمی میدان میں لاجواب کرنے کی شدید ضرورت تھی۔اس دور کے اسی مخصوص ماحول نے مناظروں کی ضرور ت، اہمیت اور ان کا ذوق وشوق عوام او رطبقہ علماء میں پیدا کردیا تھا۔ا سی ضرورت کے لئے حافظ صاحب بھی میدانِ معرکہ میں آدھمکے۔ حافظ صاحب نے طالب علمی کے دوران میں ہی مناظرے شروع کردیئے تھے۔ ان مناظروں میں آپ کے مد مقابل ہندو، آریہ سماج، مرزائی، چکڑالوی یعنی منکر ِحدیث اور عیسائی وغیرہ سبھی مذاہب کے لوگ ہوتے تھے۔ اللہ تعالیٰ نے حافظ صاحب کو خطابت کے جوہر سے |