حال تھا۔ چنانچہ ثنائی قرآنِ مجید کا مقدمہ لکھتے ہوئے مولانا امرتسری کی ان اَغلاط کا عندیہ دیاہے۔ یہ حضرات گاہے بگاہے مسجد ِقدس میں محدث روپڑی سے ملاقات کے لئے تشریف لاتے۔ محدث روپڑی حج پر تشریف لے گئے تو ان کے ذریعے سعودی عرب سے بعض کتابیں منگوائیں ۔ تقریروں میں حاضری کے لئے اہتمام جامعہ سلفیہ ،فیصل آباد کا مشہور تعلیمی ادارہ ہے ۔ راقم الحروف نے درس و تدریس کے سلسلہ میں وہاں اچھا خاصا وقت گزارا ہے۔ وہاں قیام کے باوجود عادت کے مطابق جمعہ ہمیشہ اپنے قصبہ سرہالی کلاں ، ضلع قصور میں پڑھاتا تھا۔ فیصل آباد جانے کے لئے گزر چونکہ لاہور سے ہوتا تھا کوشش ہوتی کہ حضرت مولانا حافظ عبد القادر روپڑی رحمۃ اللہ علیہ سے مسجدقدس میں سلام کرکے پھر سفر اختیار کروں ۔ ایک دفعہ میں سلام کے لئے حاضر ہوا تو فرمایا: ٹھہرو، اکٹھے چلتے ہیں ۔ مسجد سے نکل کر ریلوے اسٹیشن کی طرف چل دیئے۔ وہاں پہنچے تو گاڑی نکل چکی تھی، فرمایا: اب شیخوپورہ چلتے ہیں وہاں سے اس گاڑی کو پکڑیں گے جب وہاں پہنچے، تو گاڑی پھر آگے نکل گئی پھر ہم اس ریل کے تعاقب میں ننکانہ پہنچے ، گرمی کا موسم تھا ،سورج یہیں غروب ہوگیا۔ آگے منزلِ مقصود تک پہنچنے کے لئے ریل کے علاوہ سڑک کا راستہ نہیں تھا، وہاں سے ہم نے سائیکل کرایہ پر لئے تو ریلوے لائن کے ساتھ ساتھ سفر شروع کردیا۔ راستہ غیر ہموار اورکم نظر آتا۔ اندھیری رات میں بچیانہ پہنچ کر دوسرے گاؤں میں پروگرام تھا ۔ سحری کے وقت مطلوبہ مقام پر پہنچے۔ شدید تھکاوٹ کی وجہ سے میں وہاں پہنچتے ہی لیٹ گیا۔ لیکن مرحوم نے خود ہی سپیکر کھول کر اکیلے تقریر شروع کردی ۔سوئے لوگ گھروں سے اُٹھ کر مسجد میں پہنچ گئے۔ تقریر کرتے ہوئے صبح کی اذان شروع ہوگئی۔ پھر نماز پڑھانے کے لئے مجھے مصلیٰ پر کھڑا کردیا۔ تھکاوٹ کی وجہ سے مجھ میں نماز پڑھانے کی ہمت نہ تھی، خیر الأمر فوق الأدب کے تحت نماز تو پڑھا دی۔ پھر کہنے لگے :قرآن کا درس دو، میں نے بہت ساری معذرت کی لیکن میری ایک نہ سنی اور کہا: درس آپ کو دینا ہی ہو گا۔ بہرصورت درس سے فراغت کے بعد میں فیصل آباد کی طرف چلا گیا۔ آپ واپس لاہور تشریف لے آئے۔ اسی طرح ایک دفعہ کوٹلی رائے ابوبکر میں عشاء کے بعد تقریر سے فارغ ہو کر راؤخاں والا سے انہوں نے ریل میں سفر کرنا تھا۔ رات کو حاجی عبدالعزیز مرحوم کے ہمراہ قریباً چھ میل کا سفر پیدل ہی کیا۔ شدید اندھیری رات تھی اور کوئی واضح راستہ بھی نہ تھا۔ کئی بستیوں کے کتے پیچھے لگ گئے لیکن اللہ ربّ العزت نے اپنی حفاظت میں منزلِ مقصود تک پہنچا دیا۔ ان واقعات کو بیان کرنے سے مقصود یہ ہے کہ دین کی اشاعت کیلئے اس مردِ مجاہد نے بہت سی صعوبتیں برداشت کیں ۔ جن کے عشر عشیر بھی آج ہم برداشت نہیں کر سکتے۔ ربّ العزت مرحوم کی مساعی ٔجمیلہ کو قبول فرما کر جنت الفردوس میں اعلیٰ مقام عطا |