خاموشی اختیار کر لی بلکہ نرم رویہ اختیار کر لیا۔ قیامِِ پاکستان کے بعد تنظیم اہلحدیث کے بجائے جمعیت اہلحدیث بنالی جس کے پہلے صدر حضرت مولانا محمد داود غزنوی مرحوم قرار پائے ۔دوسری طرف محدث روپڑی، امام عبدالجبار غزنوی کے شاگرد ہونے کے ناطے غزنوی خاندان کے موقف پر مضبوطی سے ڈٹے رہے۔آپ سلفی عقیدہ میں مداہنت کے قائل نہ تھیبلکہ مناظر اسلام مولانا ثناء اللہ امرتسری کے عقیدہ میں کمزور مسائل کی بارہا آپ نے نشاندہی کی تاکہ رجوع کرلیں لیکن نزاع طول پکڑتا گیا، یہاں تک کہ صفاتِ الٰہی میں تاویل و تحریف اور بعض معجزات کی ناپسندیدہ تاویلوں کا معاملہشاہ عبدالعزیز آلِ سعود مرحوم و مغفور تک پہنچا تو انہوں نے رجوع کی ہدایت فرمائی جس کے نتیجہ میں تفسیرالقرآن بکلام الرحمن کے شروع میں اِجمالاً رجوع کی ایک چٹ لگا دی گئی لیکن کتابوں میں عقیدہ کی اِصلاح نہیں کی گئی۔ اس بارے میں حافظ عبدالقادر روپڑی دلائل کی بنیاد پر اپنے چچا مرحوم کے مو قف کے پر زور حامی تھے۔ تقریروں اور تحریروں میں برملا اس کا ا ظہار کرتے۔ دوسری طرف مولانا امرتسری رحمۃ اللہ علیہ کی دینی/ سیاسی خدمات اور باطل اَدیان کے مقابلے میں اسلام کی صداقت و حقانیت کا اِظہار ان کا لازوال کارنامہ ہے جو نصف النہار کے سورج کی طرح واضح ہے ۔ تاہم یہ حقیقت ہے کہ اسلامی دفاع کے کارنامے اپنی جگہ لیکن عقیدۂ سلف کی تعبیر میں ایسی تاویل وتحریف گوارا نہیں کی جاسکتی چنانچہ حافظ صاحب مرحوم نے ان کے کمزور پہلو کو زیادہ محسوس کیا اور ان کی اسلامی خدمات کی طرف کم توجہ دی۔حقیقت یہ ہے کہ ایک طرف مولانا ثناء اللہ کی خدمات اور دوسری طرف ان کے عقیدہ میں سلفی مسائل کا ابہام ایک بڑی الجھن ہے کہ اہل حدیث علماء میں وہ جرأت مندانہ سلفی نکھارپیدا نہ ہوسکا جو محدث روپڑی رحمۃ اللہ علیہ کے موقف کا پرزور حمایتی اور داعی ہو۔ یاد رہنا چاہئے کہ اس بارے میں غزنوی اور روپڑی خاندان کا فکر نرالانہیں تھا بلکہ دیگر محققعلماء کا موقف بھی یہی تھا۔مثلاً حضرت مولانا عطاء اللہ حنیف مرحوم کو مرکزی جمعیت اہل حدیث، پاکستان میں مرکزی مقام حاصل تھا لیکن مولانا امرتسری کی بے جا تاویلوں سے وہ سخت متنفر تھے اگرچہ اسلام کے دفاعی کاموں او رفیصلہ آرہ کے وہ پرزور حمایتی تھے۔ مولانا عطاء اللہ حنیف رحمۃ اللہ علیہ ، محدث روپڑی رحمۃ اللہ علیہ سے بے انتہا عقیدت رکھتے۔ مسجد مبارک میں جمعہ پڑھانے کے بعد اکثر محدث روپڑی کی زیارت کے لئے حاضر ہوتے او ران کی تالیفات کو قدر کی نگاہ سے دیکھتے بلکہ ان کے مطالعہ کی تاکید کرتے بالخصوص درایت ِتفسیری کی بہت تعریف کرتے جو تفسیرمیں سلفی موقف کا شاہکار ہے۔حضرت مولانا محمد یوسف(راجووال) نے محدث روپڑی کی کتاب ''اہلحدیث کے امتیازی مسائل'' انہی کے مشوروں سے شائع کی تھی بلکہ مولانا نے مقدمہ لکھا۔اس سلسلہ میں انہیں محدث روپڑی کی کتابوں کی فہرست راقم الحروف نے مہیا کی ۔ اسی طرح شیخ الحدیث مولانا محمد اسماعیل سلفی( گوجرانوالہ) کا قریباً یہی |