Maktaba Wahhabi

49 - 79
تبدیل کرنے کے لئے تیار نہ تھے، اس بناء پر حافظ عبدالقادر نے دو ٹوک الفاظ میں اعلان کردیا کہ جب تک یہ لوگ اپنا نظام تبدیل نہیں کرتے، ہماری ان سے صلح نہیں ہوسکتی۔ غصہ میں سٹیج سے اتر کر گلبرگ، سی بلاک کی مسجد میں چلے گئے۔ واپس لانے کی ہر ممکن کوشش ہوئی لیکن واپس نہ آئے۔ محدث روپڑی رحمۃ اللہ علیہ اور ان کے برادرِ خورد حافظ محمد حسین امرتسری رحمۃ اللہ علیہ کا موقف بھی شرعی نظام کے بارے میں ٹھوس تھا۔ اس کا اتنا اثر ضرور ہوا کہ اس وقت سے لے کر آج تک مرکزی جمعیت اپنے سربراہ کو لفظ امیر سے پکارتی ہے۔ دستور میں اس لفظ کو شامل کر لیا گیا ہے لیکن اندرونی نظام وہی ہے جو پہلے تھا۔ سعودی عرب کے بعض مخلص احباب نے اس نظام کی اِصلاح کے لئے پاکستانی کبار علماء سے رابطہ کیا تاکہ دستور کی ہیئت ِترکیبی کو شرعی بنایا جاسکے۔ اس کے نتیجہ میں مرکزی جمعیت نے حافظ محمد یحییٰ عزیز میرمحمدی کی سربراہی میں دستوری کمیٹی تشکیل دی جو دستور و نظام کو شریعت کے مطابق ڈھالے لیکن اس کی سفارشات کو چنداں اہمیت نہ دی گئی۔ یہ کہہ کر بات کو ٹال دیا گیا کہ جو نظام ہمارے بزرگوں نے ہمیں دیا ہے، ہم اس کونہیں چھوڑیں گے اور سعودی عرب کی محسن شخصیت کو مایوس کیا گیا۔ اسی کے نتیجہ میں دوبارہ پھر جمعیت اہل حدیث دو دھڑوں میں منقسم ہوگئی ہے : ساجد میر گروپ اور لکھوی گروپ ۔ مرکز الدعوۃ والارشاد کے مسؤلین نے عارضی اتحاد کے بعد ان دونوں گروہوں سے اسی بنا پر علیحدگی اختیار کرلی کہ یہ لوگ شرعی نظام کے بجائے مغربی جمہوریت کے علمبردارہیں ۔یہ آج سے ۵/۶ برس پہلے کا واقعہ ہے ۔ انہی دنوں فیصل آباد کے سٹیج پر دوسرا مسئلہ یہ پیدا ہوگیا کہ حافظ عبدالقادر نے دولت پرستوں کے خلاف متشدانہ رویہ اختیار کیا۔ یہاں حاجی عبدالقیوم صاحب بھی موجود تھے جو بڑے دولتمند ہونے کے ساتھ ساتھ علماء کے خادم اور قدر دان تھے۔ حافظ محمد اسماعیل روپڑی سے ان کا خصوصی تعلق تھا۔ حافظ صاحب مرحوم کراچی میں ان کے ہاں قیام فرماتے بلکہ نمازِ تراویح ان کی کوٹھی کے وسیع لان میں پڑھاتے، جہاں شائقین کا جم غفیر مرحوم کا قرآن سن کر بے حد مسرت محسوس کرتا،وہاں لمبے قیام کے باوجود لوگوں کا شوق و ذوق قابل دید ہوتا ۔اس متشددانہ رویہ پر وہ ناراض ہو کر سٹیج سے اُترگئے۔ خطیب ِملت حافظ محمد اسمٰعیل روپڑی رحمۃ اللہ علیہ نے بعد ازاں حکمت ِعملی کے ساتھ ان کو صلح صفائی پر آمادہ کرلیا۔ ثنائی ، روپڑی نزاع دوسری طرف ثنائی اور روپڑی نزاع تاریخ کا ایک حصہ ہے۔ اس اختلاف کا آغاز اگرچہ مولانا ثناء اللہ مرحوم اور غزنوی خاندان کے علما ء سے ہوا ،بعد ازاں مولانا داود غزنوی نے اس بارے میں
Flag Counter