کارہائے نمایاں کو ہمشہ صفحۂ اول پر جگہ دے کر یا پھر کسی مناسب مقام پر شائع کر کے محبت کا اظہار کیا۔ ابتدائی اَدوار میں جب سعودی حکمرانوں نے اپنی سرزمین سے بالعموم اور حرمین شریفین سے بالخصو ص آثارِ شرک مٹانے کا اہتمام کیا تو اہل بدعت نے بڑا شور بپا کیا ۔اس کے جواب میں شاہ ابن سعود نے فرمایا: عالم اسلام کے ثقہ علماء اگر ان چیزوں کا وجود کتاب و سنت سے ثابت کردیں تو ابن سعود ان قبوں اور آثار کو نئے سرے سے صر ف مٹی کی اینٹوں سے نہیں بلکہ سونے کی اینٹوں سے تعمیر کرادے گا لیکن ثبوت پیش کرنے کی آج تک کسی میں جرأت نہ ہوسکی۔ مؤقرجریدہ تنظیم کے پہلے دور کی فائلوں کو اٹھا کر دیکھ لیجئے تو اس میں ایسی خبریں نمایاں نظر آئیں گی۔پٹرول کی دریافت کے موقعہ پر امریکی کمپنیوں سے معاہدے، تاریخ کا ایک اہم باب ہے ،وہ بھی تنظیم کے سینے میں محفوظ ہے۔ مسئلہ صدارت و امارت...مسائل میں مضبوط موقف کے حامی موصوف شرعی مسائل میں مضبوط موقف کے حامی تھے۔ جس بات کو حق سمجھا، ساری زندگی اس کومضبوطی سے تھاما۔ معاندین کی مخالفت کی کبھی پرواہ نہیں کی۔ لچک اور مداہنت کے الفاظ سے وہ ناآشنا تھے او رنہ کبھی ایسے لوگوں کو پسند کیا جو مسائل میں صلح کن موقف کے حامی ہوں اور اس طرح دین کے احکام ومسائل ہی بدل ڈالیں ۔ ان کے بڑے بھائی بہت ساری خوبیوں کے ساتھ متصف تھے۔ بسا اوقات ان کا رویہ نرم ہوتا ،وہ اسے بھی ناپسند کرتے ۔مسئلہ صدارت و امارت روپڑی علماء اور دیگر بہت سارے اہل علم کے مابین وجہ ِنزاع بنا رہا ۔ علماءِروپڑکا نقطہ نظر یہ تھاکہ اصلاً شرعی تنظیمی نظام، نظامِ امارت ہے جس میں آخری فیصلے اور تنفیذ کاذمہ دارامیر ہوتا ہے جبکہ مخالفین یہ کہتے تھے کہ امیر کوشوریٰ کے اکثریتی فیصلے کا پابند ہونا چاہئے گویا امیر اور شوریٰ باہم بر سرپیکار رہیں ۔ اس مسئلے پر طویل و عریض نزاع اور کشمکش کا سلسلہ چلتا رہا ہے۔ایک دفعہ مولانا محمد علی لکھوی مرحوم کو اس کے لئے ثالث مقرر کیا گیا لیکن نظام کے بجائے صرف نام کی تبدیلی کرنے کی بنا پر نزاع کم ہونے کے بجائے بڑھتا چلاگیا جس کی وجہ سے جماعت میں بہت خلفشار پیدا ہوا۔ اس سے قبل ۱۹۶۱ء میں فیصل آباد، دھوبی گھاٹ کے وسیع میدان میں ملکی سطح پرمرکزی جمعیت اہلحدیث کی سالانہ کانفرنس کا انعقاد ہوا۔ اس میں اس مسئلہ کے مخالف اور موافق سب علماء جمع تھے۔ کوشش یہ تھی کہ کسی طرح جماعت میں شرعی نظام کی صورت میں اتحاد پیدا ہوجائے۔ سٹیج پر سب نے اپنے موقف کا اظہار واضح الفاظ میں کیا۔ حافظ محمد اسماعیل روپڑی کا انداز یہ تھا کہ ہر ممکن طریق سے صلح ہوجانی چاہئے۔ مخالفین لفظ صدارت کے بجائے لفظ امارت کے استعمال پرتو راضی ہوگئے لیکن وہ نظام کو |