حضرت مولانا حکیم محمد اشرف سندھو مرحوم کی عادت تھی کہ وہ ان کے مختلف مناظروں کی روداد شائع کرتے رہتے۔ حکیم صاحب مرحوم کا محدث روپڑی رحمۃ اللہ علیہ سے بڑا قلبی تعلق تھا۔ اتفاق دیکھئے کہ دونوں ایک ہی دن فوت ہوئے بلکہ ان کی وفات میں صرف چھ گھنٹے کا فرق ہے۔ محدث روپڑی نے ۲۰ / اگست۱۹۶۴ء ظہر کے بعد سوا دو بچے دن میوہسپتال لاہور میں انتقال فرمایا۔ سندھو صاحب بھی اس ہسپتال میں زیر علاج تھے۔ کچھ دیر بعد جب ان کو محدث روپڑی کی و فات کی اطلاع ملی تووہ بھی انتقال کرگئے۔ ہمارے زمانہ طالب علمی میں سندھو صاحب مرحوم مسجد ِقدس کی چار دیواری میں اکثر قیام فرماتے اور اس دوران غیر سلفیعقائد کے حامل لوگوں کے خلاف کتابیں تالیف کرنے کا فریضہ انجام دیتے تھے۔ ''اکابر علماءِدیو بند'' نامی کتاب جب انہوں نے طبع کی تو انہی دنوں نسبت روڈ لاہور کے ایک مکان میں علماء کی دعوت میں یہ کتاب پیش کردی ۔اس مجلس میں مولانا غلام اللہ خاں ، راولپنڈی بھی شریک تھے ۔ ان کو جب یہ نسخہ پیش کیا گیا تو وہ سیخ پا ہوکر مجلس سے اُٹھ گئے ۔کچھ دیر بعد اسی مجلس میں حافظ محمد اسماعیل روپڑیتشریف لائے ،جب انہیں اس واقعہ کا علم ہوا تو فوراً مولانا کے پیچھے قاسمی برادران کی ٹیمپل روڈ والی مسجد میں پہنچ گئے۔ مولانا غلام اللہ خاں نے احباب کو تاکید کررکھی تھی کہ کوئی آئے تو دروازہ نہ کھولنا لیکن جب حافظ اسمٰعیل روپڑی گئے تو اُن کو دروازہ خود ہی کھولنا پڑا اور واپس تشریف لے آئے اس سے قبل حافظ عبدالقادر نے بھی ان کو روکنے کی کوشش کی تھی لیکن ناکام رہے ۔ حافظ اسماعیل روپڑی رحمۃ اللہ علیہ نے نے ایک دفعہ ساری سردیاں میرا کمبل سفروں میں ہمراہ رکھا اور اپنی اُونی لوئی مجھے دے گئے بعد میں یہ کمبل مجھے واپس کر کے اپنی لوئی وصول کر لی ۔ آہ! آج حافظ اسماعیل روپڑی صاحب جیسا خلیق شخص ملنا مشکل نظر آتا ہے۔ کہاں سے لائیں گے اس جیسا مہربان، شفقت و رحمت کا پتلا...! چند مناظرے پاکستان کے معرضِ وجود میں آنے سے قبل حافظ عبد القادر روپڑی کا ایک مناظرہ ہمارے سابقہ گاؤں 'کلس' ضلع لاہور (حال بھارت)میں مسئلہ تراویح پر مولوی محمد عمر اچھروی سے ہوا تھا۔ مجھے تو اس کا ہوش نہیں ، ہمارے بزرگ فرماتے ہیں کہ ربّ العزت نے حافظ صاحب کو بڑی کامیابی سے ہم کنار فرمایاتھا۔ ان کے چند مناظرے ایسے بھی ہیں جن میں راقم الحروف شریک تھا۔ ایک دفعہ لاہور مسجد |