ذہبی نے یہ الفاظ نقل کیے ہیں ۔ عن عاصم بن ابی النجود عن ابی عبد الرحمٰن الاسلمی قال ما رأت احد اکان اقراء من علی رضی اللّٰه عنہ یعنی حضرت علی حافظ قرآن تھے اور بکثرت تلاوت کیا کرتے تھے۔ معرفۃ القراء الکبار المذہبی ص ۳۲،ج۱۔ امام جزری رحمہ اللہ نے بھی آپ کو حفاظ سے شمار کیا ہے۔ طبقات القراء، جزری ص ۴۳۲، ج۱ اب تو کوئی شک و شبہ نہیں کہ حضرت علی حافظ تھے۔ اب اتنے دلائل و شواہد کے ہوتے ہوئے آپ کی زندگی میں کس کو جرأت ہو سکتی ہے کہ قرآن میں رد و بدل کی جرأت کرے۔ بیشک یہ بات کہ ’’کلام اللہ محرف ہے‘‘ بعید از عقل ہی نہیں بلکہ حماقت کے ساتھ باعثِ شقاوت بھی ہے کیونکہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے بارے میں یہ خیال کرنا کہ آپ خائن تھے تمام محدثین کے اس قول کی تردید کے مترادف ہے۔ الصحابۃ کلھم عدول بقول شما قرآن محرف ہے۔ یہ اس طرح بھی ناممکن ہے کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ کی زندگی میں آپ کے سامنے یہ کام ہوا اور آپ خاموش بیٹھے ہیں یہ بات تو تب ہی ہو سکتی ہے جب یہ تسلیم کیا جائے کہ آپ معاذ اللہ بزدل تھے یا آپ کو قرآن سے کوئی سروکار نہ تھا۔ پہلی بات، تو اس کی گواہی کے لئے تاریخِ عالم بھری پڑی ہے جو کہ ببانگ دُبل اعلان کر رہی ہے آپ اسد اللہ تھے۔ دوسری بات کہنے سے پہلے اپنے ایمان کی دیکھ بھال ضروری ہے۔ اب بظاہر تو کوئی بات نہی آتی جس سے ہم یہ تسلیم کر لیں کہ آپ کی زندگی میں قرآن کی تحریف ممکن ہو۔ اب جب ان کو کوئی راہ نہیں ملتی تو یہ آڑ لیتے ہیں کہ حضرت علی نے تقیہ کیا لیکن اگر یہ دیکھا جائے کہ تقیہ کس چیز کا نام ہے تو کوئی بھی مسلمان حضرت علی کے بارے میں یہ کلمات نہیں کہہ سکتا کیونکہ تقیہ عبارت ہے منافقت سے۔ دل میں اور زبان سے کچھ اور ظاہر کرنے کا نام ’’تقیہ‘‘ ہے۔ ایسے دو رنگے شخص کی سزا جہنم کا سب سے آخری حصہ قرار پایا ہے۔ اب حضرت علی رضی اللہ عنہ کی محبت کا دم بھرنے والو کیا حضرت علی کو اب بھی تقیہ کرنے والا کہتے ہو۔ اگر اب بھی تمہاری یہی حالت ہے تو ہمیں یہ کہنے میں کوئی تامل نہیں ہے ؎ دلوں میں کفر رکھتے ہیں بظاہر دوستانہ ہے۔ بفرض محال آپ کی یہ بات مان لی جائے کہ حضرت علی نے اس طرح خاموشی اختیار کی کہ کہیں مسلمانوں میں تفرقہ و اختلاف نہ ہو جائے یہ ’’عذرِ لنگ‘‘ بھی ناقابلِ قبول ہے کیونکہ ہر طرح کے جھگڑے حضرت علی رضی اللہ عنہ کی خلافت میں ہوئے۔ قرآن کے بارے میں ہی امت کی تفریق ہونا تھی جب کہ اس کی تصحیح تو بہت آسان تھی۔ کیونکہ جس طرح حضرت عثمان نے تمام قرأتوں کو ختم کر کے تمام امت کو ایک قرأت میں قرآنِ مجید پڑھنے کا حکم دیا تھا آپ بھی قرآن کو درست کر کے بزور |