ذو النورین کے لقب سے یاد کیا جاتا ہے۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے بعد شوریٰ کے مشورہ سے امیر المومنین منتخب ہوئے۔ آپ کے زمانے میں بہت سی فتوحات ہوئیں لیکن بعد میں اختلافات کی وجہ سے فتوحات رک گئیں اور ۳۵ھ میں بلوائیوں کی بد بختی برآئی انہوں نے آپ کو شہید کر دیا۔ رضی اللہ عنہ۔ الاصابہ ص ۴۵۵ ج۳ اسد الغابہ ص ۳۷۶، ج۳۔ قرآن مجید کو ایک جگہ جمع کرنے کا سہرا آپ ہی کے سر ہے (یعنی ایک قرأت میں اختلاف کی بناء پر)ابو عبید نے آپ کو اپنی کتاب القرآت القراء النبی صلی اللہ علیہ وسلم میں حفاظ میں سے شمار کیا ہے۔ الاتقان ص ۷۴، ج۱۔ ذہبی نے آپ کو حافظ لکھا ہے۔ معرفۃ القراء الکبار ص ۲۹، ج۔ جزری نے یہ الفاظ تحریر کیے ہیں ۔ حفظ علی شہد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم وعرض علیہ انتہٰی۔ یعنی آپ نے قرآن مجید از بر کر کے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کو سنایا۔ طبقات القراء، جزری ص ۵۰۷، ج۱۔ امام ابن جوزی رحمہ اللہ نے بھی آپ کو حفاظ میں سے شمار کیا ہے۔ تلقی فہوم اہل الاثر ص ۲۲۵۔ ۴۔ حضرت علی رضی اللہ عنہ: نسب: امیر المومنین ابو الحسن علی بن ابی طالب بن عبد المطلب بن ہاشم القرشی ہاشمی معرفۃ القراء الکبار ذہبی ص ۳۰، ج۱۔ آپ بعثت سے دس سال پہلے پیدا ہوئے اور تقریباً دس سال کی عمر میں اسلام لا کر بچوں میں سبقت لے گئے۔ یعنی بچوں میں سب سے پہلے آپ ہی مشرف باسلام ہوئے۔ آپ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے چچا زاد بھائی اور داماد تھے۔ آپ کے بارے میں حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے جنگِ تبوک کے موقع پر فرمایا تھا (جب آپ نے حضرت علی کو مدینہ چھوڑنا چاہا اور حضرت علی نے یہ کہا کہ آپ مجھے عورتوں اور بچوں میں چھوڑے جا رہے ہیں )الا ترضی ان تکون منی بمنزلۃ ھارون من موسیٰ ولکن لا نبی بعدی۔ یعنی اے علی! کیا تو اس بات پر راضی نہیں کہ تجھے وہ مقام ملے جو موسیٰ علیہ السلام کے کوہِ طور پر جانے پر حضرت ہارون کو ملا تھا۔ آپ جنگ تبوک کے علاوہ تمام جنگوں میں شریک ہوئے۔ خیبر کے فاتح بھی آپ ہی ہیں ۔ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کی شہادت کے بعد آپ نے بیعت خلافت لی۔ آپ کے زمانے میں فتوحات نہ ہو سکیں کیونکہ آپ کی مدتِ خلافت آپس میں جنگ و جدال میں ہی کٹ گئی۔ آپ رمضان کی ۱۷ کو صبح کی نماز کے لئے نکلے ہی تھے کہ عبد الرحمٰن ابنِ ملجم نے آپ کو زخمی کر دیا جس سے آپ جانبر نہ ہو سکے۔ یہ واقعۂ دل سوز ۴۰ھ میں پیش آیا۔ الاصابہ ص ۵۰۱، ج۲۔ الاتقان والے نے ابو عبید کے حوالے سے آپ کو حافظ شمار کیا ہے۔ الاتقان ص ۷۴،ج۱ |