سامنے ڈھال بنا رکھا تھا کہ مبادا کوئی تیر آپ تک پہنچے۔ حضرت قیس رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے حضرت طلحہ کے ہاتھ کو دیکھا جو کہ جنگ احد میں شل ہو گیا تھا۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے آپ کا نام طلحۃ رضی اللہ عنہ الفیاض رکھا تھا۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم فرمایا کرتے تھے جس نے زندہ شہید کو دیکھنا ہو وہ طلحہ رضی اللہ عنہ کو دیکھے۔ آپ جنگِ جمل میں گئے لیکن جنگ میں شریک نہیں ہوئے۔ آپ کو مردان ابن عبد الحکم نے تیر مارا جو کہ آپ کی پنڈلی پر لگا جس سے آپ جانبر نہ ہو سکے اور ۳۶ھ میں اس دارِ فانی سے کوچ کر گئے۔ وفات کے وقت آپ کی عمر ۶۴ سال تھی۔ الاصابہ فی معرفۃ الصحابہ ص ۲۲۰ ج۲۔ الاستیعاب مع الاصابہ ص ۲۱۰۔ج۲۔ آپ کو ابو عبید نے اپنی کتاب القرأت القراء من اصحاب النبی صلی اللہ علیہ وسلم میں حافظ قرآن لکھا ہے۔ الاتقان ص ۷۴،ج۱ (باقی) مولانا عبد الرحمٰن عاجز ترے آگے کسی کی فردِ عصیاں کون دیکھے گا جگر شق، زرد چہرہ، چاک داماں کون د یکھے گا پریشاں ہوں مرا حالِ پریشاں کون دیکھے گا جہاں پڑتی نہیں نظریں کسی کی آتشِ گُل پر وہاں اے دل ترا یہ سوز پنہاں کون دیکھے گا اگر وہ نور برساتے ہوئے محفل میں آجائیں تری صورت پھر اے شمعِ فروزاں کون دیکھے گا کلی افسردہ، غنچے دم بخود اور پھول یژ مردہ یہ صورت ہے تو پھر شکلِ گلستاں کون دیکھے گا تمہاری تیغ کے کُشتے تڑپتے ہیں مزاروں میں یہ نظارہِ سرِ گورِ غریباں کون دیکھے گا غنیمت ہیں یہ دو دن زندگی کے آؤ مل بیٹھیں بچھڑنے پر یہ پھر رنگ بہاراں کوئی دیکھے گا اگر جاں جارہی ہے شوق سے سو مرتبہ جائے ترا جانا مگر اے جانِ جاناں کون دیکھے گا قیامت پر مرا ایمان مگر اے داورِ محشر ترے آگے کسی کی فردِ عصیاں کون دیکھے گا تو اس دار العمل سے گر تہی دامن چلا عاجزؔ تری جانب پھر اے بے ساز و ساماں کون دیکھے گا |