عبد الحفیظ منیر بھٹوی آزاد پیر جھنڈا سندھ قسط (۱) ترمیم واضافہ: ادارہ عہدِ نبوی میں حافظانِ قرآن اور اس کی حفاظت قرآنِ کریم وہ ابدی ہدایت ہے جو انسان کو بامقصد زندگی گزارنے کا شعور اور زندگی کے تمام شعبوں کے لئے مکمل رہنمائی دیتی ہے۔ اس کا بہت بڑا امتیاز یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اسے پوری نوعِ انسانی کے لئے مکمل اور آخری ضابطۂ حیات بنا کر تا قیامت اس کی حفاظت کا ذمہ بھی خود اُٹھایا ہے۔ اس سے قبل آسمانی ہدایات جس طرح زمان و مکان کی قیود سے محدود ہوتی تھیں اسی طرح ان کی حفاظت بھی مخصوص اشخاص کے سپرد ہوتی تھی جیسا کہ ’’بما استحفظوا من کتاب اللّٰه ‘‘ سے واضح ہے۔ لیکن یہ ’’مخصوص اشخاص‘‘، اس ذمہ داری سے کما حقہ عہدہ برآ نہ ہو سکے بلکہ انہوں نے خواہشاتِ نفسانی کو آسمانی ہدایات میں داخل کر کے ان کو بھی احکامِ خداوندی کا نام دے دیا۔ قرآن کریم نے ان کے اِس کردار ناہنجار کو ان الفاظ میں بیان کیا۔ ’’یحرفون الکلم عن مواضعہ۔‘‘ ’’یکتبون الکتب بایدیھم ثم یقولون ھذا من عند اللّٰه ۔‘‘ قرآن مجید چونکہ ’’ھدی للعٰلمین‘‘ ہے بنا بریں زمان و مکان کی قیود سے بالاتر ہو کر اس کی حفاظت کا ایسا انتظام کیا گیا کہ جس میں انسانی دخل اندازی کا بالکل کوئی حصہ نہیں ۔ چنانچہ فرمانِ خداوندی ہے۔ ﴿إِنَّا نَحْنُ نَزَّلْنَا الذِّكْرَ وَإِنَّا لَهُ لَحَافِظُونَ﴾ ۔‘‘ یعنی ہم نے یہ قرآن اتارا اور ہم ہی اس کے محافظ ہیں ۔‘‘ دوسرے مقام پر فرمایا: ﴿ لَا يَأْتِيهِ الْبَاطِلُ مِنْ بَيْنِ يَدَيْهِ وَلَا مِنْ خَلْفِهِ تَنْزِيلٌ مِنْ حَكِيمٍ حَمِيدٍ ﴾ چونکہ قرآن و انا و بینا کی طرف سے نازل شدہ ہے اس لئے اس میں جھوٹ اور خواہشاتِ نفسانیہ کسی طرف سے داخل نہیں ہو سکتی۔ قرآن مجید صرف خود ہی محفوظ نہیں بلکہ سابقہ سچی تعلیمات کو بھی اپنے اندر سمیٹے ہوئے ہے اور ان کی حفاظت کی ضمانت دیتا ہے جیسا کہ اس آیت مبارکہ سے واضح ہوتا ہے۔ |