’’یعنی ہم نہیں جانتے کہ زمین والوں کے ساتھ برائی کا ارادہ کیا گیا ہے یا ان کے رب نے ان کے ساتھ بھلائی کا ارادہ فرمایا ہے۔‘‘ رہا انسان، تو وہ بچنے میں تو غلاظت اور گندگی سے بھی پرہیز نہیں کر پاتا اور بڑا ہو کر اگر اسے کوئی رہنمائی نہ دے تو اس کی حالت یوں ہوتی ہے کہ: اُوْلٓئِكَ كَالْاَنْعَامِ بَلْ ھُمْ اَضَلُّ (الاعراف: ۱۷۹) ’’یعنی یہ لوگ تو (انسان ہونے کے باوجود) حیوانوں سے بھی گئے گزرے ہیں ۔‘‘ اور پھر انسان نے تو اپنی جہالت پر مہر روز اول ہی سے لگا دی تھی جبکہ اللہ تعالیٰ کی امانت کو اُٹھانے سے زمین و آسمان اور پہاڑوں تک نے انکار کر دیا تھا اور انسان نے بے باکی سے اس کا ذمہ اُٹھا لیا۔ وَحَمَلَھَا الْاِنْسَانُ اِنَّه كَانَ ظَلُوْمًا جَھُوْلًا۔ (الاحزاب: ۷۲) لیکن اب جبکہ انسان نے اس فریضہ کی انجام دی کے لئے خود کو پیش کر ہی دیا تو ضروری تھا کہ اس کو علم و حکمت، رشد و ہدایت اور اسرار و رموز سے آگاہ کر دیا جاتا کہ وہ اس فریضہ کی انجام دہی سے کما حقہ عہدہ برآ ہو سکے۔ چنانچہ قرآن مجید کی مندرجہ ذیل آیات حقیقت احتیاج تعلیماتِ سماویہ کی بہترین ترجمان ہیں : ۱۔ ابو البشر حضرت آدم علیہ السلام کے متعلق اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں :۔ وَعَلَّمَ اٰدَمَ الْاَسْمَاءَ كُلَّھَا اَلْاٰيَةَ (بقرة: ۳۱) ’’یعنی اللہ تعالیٰ نے آدم علیہ السلام کو سب چیزوں کے نام سکھائے۔‘‘ |