’’جس عورت نے خود سر ہو کر اپنے سرپرست (والدین وغیرہ) کی اجازت کے بغیر نکاح کر لیا۔ اس کا نکاح باطل ہے۔ اس کا نکاح باطل ہے۔ اس کا نکاح باطل ہے۔‘‘ سرپرستوں سے آزاد ہو کر لڑکی اُٹھتی ہے۔ عدالت میں پہنچ کر دعویٰ کرتی ہے کہ بالغ ہوں اور اپنی مرضی سے فلاں لڑکے سے نکاح کرتی ہوں ۔ اس پر عدالت ان کو اس کی اجازت دے دیتی ہے۔ نتیجہ جو نکلتا ہے۔ وہ آپ سب کے سامنے ہے۔ دراصل موجودہ عدالتوں کا یہ اصول، فقہ حنفی سے ماخوذ ہے۔[1]بہرحال کچھ ہو، اس کے نتائج نہایت دور رس نکل رہے ہیں اور چوری چھپے یا رانوں اور معاشقوں کے لئے راستہ ہموار ہو گیا ہے۔ اس لئے ہم پوری ملتِ اسلامیہ سے اپیل کرتے ہیں کہ معزز گھرانوں کی عزت و آبرو کا تحفظ کرتے ہوئے اس قانون کو بدلوانے کی کوشش کرے۔ ورنہ ’’نہ کہ را منزلت نہ مہ را‘‘ والا یہ سماں سدا طاری رہے گا۔ جہیز نہیں ، انسانیت پر نگاہ رکھئے: ایک اور مصیبت جس نے صالح معاشرہ کی حد درجہ حوصلہ شکنی کی ہے۔ یہ ہے کہ دنیا رشتے ناطوں میں انسایت اور دیانیت کے بجائے دولت اور حسن و جمال جیسی چیزوں کو مقدم رکھتی ہے۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے کہ: تنک المرأۃ لا ربع لما لھا ولحسبھا ولجما لھا ولدینھا فاظفر بذات الدین تربت یداک [2] چار چیزوں کو دیکھ کر عورت سے نکاح کیا جاتا ہے۔ مال، خاندان، حسن اور دین تیرا بھلا ہو! تو دیندار کو پانے کی کوشش کر۔ مال و دولت ڈھلتی پھرتی چھاؤں ہے۔ خاندان، افراد سے بنتا ہے۔ ضروری نہیں کہ خاندان اونچا ہو، تو وابستہ افراد بھی سبھی اور ہر اعتبار سے بھلے ہوں ۔ باقی رہا حسن و جمال یقین کیجئے، یہ تو صرف لحظہ بھر |