Maktaba Wahhabi

85 - 143
حامل ہیں ۔ نیزامام ابن عبدالبررحمہ اللہ کی کتاب’’جامع بیان العلم وفضله‘‘میں اصولِ فتویٰ سے متعلق کافی بیش بہا موادموجودہے۔ ان علماء کرام نے افتاء کے منصب کی نزاکت کوبھانپتے ہوئے اس کے اصول وضوابط کواحاطۂ تحریرمیں لایا۔ سلف صالحین،علم میں اعلیٰ درجہ رکھنے کے باوصف اصدارِفتویٰ کے بارے میں حددرجہ محتاط ہوا کرتے تھے۔ فتویٰ میں احتیاط علماء سلف سے چند مثالیں : صحابہ کرام، تابعین عظام اور ائمہ دین فتویٰ دینے میں بہت ہی زیادہ محتاط تھے۔ اس کی کئی مثالیں ملتی ہیں ۔ معاویہ بن ابی عیاش بیان کرتے ہیں کہ ایک دن میں سیدناعبداللہ ابن زبیررضی الله عنهما کی مجلس میں موجودتھا اتنے میں محمدبن ایاس بن البکیر آئے اورکہنے لگے:ایک دیہاتی نے اپنی بیوی کودخول سے قبل تین طلاقیں دی ہیں ،اس بارے میں آپ دونوں کی کیارائے ہے؟،توعبداللہ بن الزبیرنے فرمایا:ہمیں اس بارے میں کچھ بھی علم نہیں ،تم عبداللہ بن عباس اورابوہریرہ سے پوچھو،ان دونوں کومیں سیدہ عائشہ کے پاس چھوڑکرآیاہوں ،ان سے پوچھ کرہمیں بھی ان کے جواب سے آگاہ کرنا،محمدبن ایاس البکیران دونوں کے پاس آئے اورمسئلہ کے بارے میں ان سے دریافت کیا توابن عباس رضی اللہ عنہ نے ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے فرمایا:(أفته یا أباهریرة فقدجاءتک معضلة) اے ابوہریرہ رضی اللہ عنہ ایک پیچیدہ مسئلہ آیاہےآپ ہی اس کے متعلق فتویٰ دیں ،تو ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے جواب دیا:(الواحدة تبینهاوالثلاث تحرمها حتی تنکح زوجاًغیره)پہلی طلاق طلاقِ بائنہ (یعنی وہ طلاق جس میں شوہر کورجوع کا حق ختم اورعورت کی مرضی سے نیاعقدکی گنجائش ہو)ہوگی، اورتین طلاقیں اس عورت کوحرام کردے گی جب تک وہ کسی دوسرے مرد سے نکاح نہ کرلے پھراسے طلاق ہوجائے۔[1] جلیل القدرتابعی عبدالرحمن بن ابی لیلی رحمہ اللہ فرماتے ہیں :(أدرکت عشرین ومائة من
Flag Counter