Maktaba Wahhabi

50 - 143
ایک ضروری وضاحت، خلع کے بارے میں احناف کا موقف یہاں کسی کے ذہن میں یہ اشکال آسکتاہے کہ علمائے احناف تو خلع کاذکر بھی کرتے ہیں اور اس کا اثبات بھی ،پھر ان کی بابت یہ کیسے کہاجاسکتاہے کہ وہ خلع کا انکار کرتے ہیں ؟ یہ بات ایک حدتک صحیح ہے کہ وہ ظاہری طور پر خلع کا اقرار کرتے ہیں لیکن وہ اس کو اس طرح ماننے کے لیے تیار نہیں ہیں جس طرح شریعت نے یہ حق عورت کو دیا ہے اس لیے ان کا ماننا اقرار کے پردے میں انکار کے مترادف ہے۔ اس کی تشریح حسب ذیل ہے۔ خلع عورت کا وہ حق ہے جو اسے مرد کے حق طلاق کے مقابلے میں دیاگیاہے۔ مرد تو اپنا حق طلاق ایسے موقعوں پر استعمال کرلیتاہے جب وہ اپنی بیوی سے ناخوش ہو۔ لیکن اگر عورت کو ایسی ضرورت پیش آجائے کہ وہ خاوند سے گلوخلاصی کراناچاہے، مثلاً : شوہر نامرد ہو، وہ حقوق زوجیت ادا کرنے پر قادر نہ ہو، یا وہ نان ونفقہ دینے پر قادر نہ ہویا قادر تو ہو لیکن دیتا نہ ہو، یا کسی خطر ناک بیماری میں مبتلا ہو جس کا علم عورت کو شادی کے بعد ہو، یا وہ سخت ظالم وجابر قسم کا ہو جوعورت پر بے جا ظلم وتشدد کرتاہو، یا شکل وصورت کے اعتبار سے عورت کے لیے ناقابل برداشت اور اس کا اس کے ساتھ نباہ مشکل ہو۔ اس قسم کی تمام صورتوں میں شریعت نے عورت کو یہ حق دیا ہے کہ وہ شوہر کا دیا ہوا حق مہر اس کو واپس کرکے اس سے طلاق کا مطالبہ کرے اگر شوہر عورت کی خواہش اور مطالبے پر اس کو طلاق دےدے تو ٹھیک ہے، مسئلہ نہایت آسانی سے گھر کے اندر ہی حل ہوجاتاہے۔ لیکن اگر مرد مذکورہ معقول وجوہات کے باوجود عورت کی خواہش اور مطالبے کو تسلیم نہ کرے، تو پھر عدالت یا پنچایت کے ذریعے سے اس مسئلے کا حل کیا جائے گا، اگر عدالت اس نتیجے پر پہنچے کہ عورت کا مطالبۂ علیحدگی بالکل جائز ہے تو وہ مرد کو طلاق دینے کا حکم دے گی اگر وہ پھر بھی طلاق نہ دے تو عدالت یا پنچایت فسخ نکاح کا حکم جاری کرے گی جو مرد کے طلاق کے قائم مقام ہوجائے گا اور عورت عدت خلع( ایک حیض) گزارنے کے بعد کسی دوسری جگہ شادی کرنے کی مجاز ہوگی۔ یہ ہے خلع کا وہ طریقہ جو قرآن کریم کی آیت﴿ فَإِنْ خِفْتُمْ أَلَّا يُقِيمَا حُدُودَ اللّهِ﴾ (البقرۃ2:229) اور حدیث میں مذکور واقعۂ حضرت ثابت بن قیس رضی اللہ عنہ سے ثابت ہے۔
Flag Counter