اور ایک تیسری رائے حضرت عبداللہ بن عمر کی یہ بیان کی گئی ہے کہ اگر عورت اسے تین طلاق شمار کرے اور خاوند کہے کہ عورت کو طلاق کا مالک بناتے وقت میری نیت ایک طلاق کی تھی، تین طلاق کا انکار کرے جس کا فیصلہ عورت نے کیا تھا، تو خاوند سے قسم لی جائے گی اور پھر اسے ایک ہی طلاق شمار کرکے خاوند کو عدت کے اندر رجوع کرنے کا حق دیا جائے گا۔[1] ان آثار سے، قدرے اختلاف کے باوجود، یہ واضح ہے کہ لڑائی جھگڑے کی صورت میں عورت کو علیحدگی کا اختیار دینا، زیر بحث تفویض طلاق سے یکسر مختلف معاملہ ہے جس کا جواز ان آثار سے کشید کیا جا رہا ہے۔ کیونکہ أَمْرُكِ بِیَدِكِ کی صورت یا تو توکیل کی بنتی ہے کہ مرد کسی اور کو وکیل بنانے کے بجائے عورت ہی کو وکیل بنا دیتا ہے یا یہ کنائی صورت ہے کیونکہ اس میں فیصلہ کن رائے خاوند ہی کی ہو گی کہ اگر عورت نے علیحدگی پسند کرلی ہے تو یہ کون سی طلاق شمار ہو گی، رجعی یا بائنہ، ایک یا تین؟ ایک رجعی شمار کرنے کی صورت میں خاوند کو عدت کے اندر رجوع کرنے کا حق حاصل ہو گا۔ اس سے زیر بحث تفویض طلاق کا اثبات کرنے والوں سے ہمارے چند سوال ہیں : 1. تفویض طلاق والی عورت اگر خاوند کو طلاق دے دیتی ہے تو کیا اس میں خاوند کی نیت کا اعتبار ہو گایا نہیں ؟ 2. اگر خاوند کہے کہ میری مراد اس تفویض طلاق سے ایک طلاقِ رجعی تھی، تو کیا خاوند کو عدت کے اندر رجوع کرنے کا حق حاصل ہو گا؟ 3. اوراگر رجوع کا حق حاصل ہو گا تو پھر تفویض طلاق کی شق ہی بے معنیٰ ہو جاتی ہے، کیونکہ جو عورت بھی اس حق کو استعمال کرتے ہوئے خاوند کو طلاق دے گی تو خاوند رجوع کر لیا کرے گا۔ 4. اگر تفویض طلاق میں طلاقِ بائنہ ہو گی تو پھر یہ صورت أَمْرُكِ بِيَدِكِ میں کس طرح آسکتی ہے جس کو اس کے جواز میں دلیل کے طور پر پیش کیا جا رہا ہے؟ جبکہ أَمْرُكِ بِيَدِكِ کی صورت میں طلاق بائنہ نہیں ہو گی جیسا کہ آثار سے واضح ہے۔ |