ہے جس کے تمام اراکین نُصیریوں سے چنے جاتے ہیں ۔ یہ معصوم سنی مسلمانوں کے خلاف بدترین جرائم کے مرتکب ہیں ۔ دکھ اور افسوس کی بات یہ ہے کہ اس ہونے والے ظلمِ عظیم پر مسلم دنیا بالکل خاموش ہے۔ چاہیے تو یہ تھا کہ عرب لیگ اس ظلم پر آگے بڑھ کر بزورِقوت اس کا راستہ روکتی ،لیکن تادمِ تحریر وہ مذمتی بیانوں اور معاشی پابندیوں کی دھمکیوں سے آگے نہیں بڑھ پائی ۔ مغربی ممالک اس معاملے میں خاموش تماشائی کا کردار ادا کر رہے ہیں ۔ وہ ابھی تک شام میں کسی ایسے گروپ کے ابھر آنے کا انتظار کر رہے ہیں جو کہ بشار الاسد کی رخصتی کی صورت میں ان کے مفادات کو ضرب نہ پہنچنے دے جن میں سے سب سے اہم ریاستِ اسرائیل کی بقا ہے۔ ایسے کئی گروہوں سے وہ ترکی میں مل چکے ہیں اور اگر مسلم دنیا اور نام نہاد عرب لیگ یونہی خاموش رہی تو پھر ممکن ہے کہ شام کے مسلمان بھی مغرب کی مدد لینے پر مجبور ہو جائیں اور آزادی کی یہ تحریک بھی مغرب ہائی جیک(Hi-jack)کرلے۔ اگر شامی عوام نے خود ہتھیار اٹھا لیے تو ممکن ہے کہ رافضی حکمران اپنے آپ کو اسرائیل کے ساتھ کسی ‘‘مقرر کردہ’’ جنگ میں الجھا لیں ۔جس کا مظاہرہ ہم ماضی قریب میں حزب اللہ اور اسرائیل جنگ کی صورت میں دیکھ چکے ہیں ۔اس جنگ کا مقصد دنیا کی نظراس قتل وغارت سے ہٹانا ہو گی جو کہ وہاں جاری ہے۔ ایران کے رافضی ہوں یا امریکہ اور اسرائیل،ان کی نظریں اس اسلامی انقلاب پر لگی ہوئی ہیں جو کہ یک دم سے اس خطے میں امڈ آیا ہے۔ مصر میں اسلامی جماعتوں کی کامیابی نے اس خوف میں اضافہ کر دیا ہے۔ انہیں ہر صورت اس تحریک کا راستہ روکنا ہے۔اگرچہ امریکہ کے لیے اب یہ ممکن نہیں رہا کہ وہ ایک اور مسلم ملک پر فوج کشی کر سکے لیکن اسرائیل کا تحفظ بہرحال اس کے لئے مقدم ہے۔اس لیے اس بات کا خدشہ ہے کہ باہمی رضامندی سے وہ ایک ایسی جنگ شروع کر دے جس کا مقصد جنگ کی آ ڑ میں اسلامی قوتوں کا خاتمہ ہو۔ یہ صرف قیاس آرائی نہیں بلکہ ان ممالک کے درمیان پائی جانے والی موجودہ مخاصمت اس بات کی غمازی کرتی ہے کہ اس پر عمل شروع ہو چکا ہے۔ اس جنگ کا مقصد نہ صرف اس ظلم سے نظر ہٹانا ہو گا بلکہ رافضہ کو وہ اخلاقی پوزیشن اور عسکری مقام بھی دینا ہو گا جس کی آ ڑ میں وہ اسلامی سرزمین پر اپنے پنجے گاڑے رکھے۔ وصلی اللّٰه و سلم علی نبینا محمد و علی آلہ وصحبہ أجمعین |