Maktaba Wahhabi

122 - 143
ینابیع الحکمت من اللسان والجنان والجہاد فی سبیل اللّٰه بالسیف والقلم واللسان میں منزلوں اپنے پیچھے چھوڑ دیا اور علوم والکمال وہبیہ وسماویہ کی ان بلندیوں پر تنہا جاکر کھڑے ہوئے۔ جہاں ان کے اقران ومعاصرین کے وہم وتصور کو بھی یار نہیں حتی کہ خود ان کے معاصرین کو یک زبان ویک قلم ہوکر اعتراف کرنا پڑا۔ ’’ما رأینا مثلہ وإنہ ما رأی مثل نفسہ ‘‘ نہ تو ہماری آنکھوں نے اس کا مثل دیکھا نہ خود اس کو اپنا سا کوئی نظر آیا۔ اے تو مجموعہ خوبی، بچہ نامت خوانم [1] شاہ ولی اللہ دہلوی رحمہ اللہ : مولانا ابو الکلام آزاد لکھتے ہیں کہ پھر 12ویں صدی کا ایک عظیم ترین ظہور علوم ومعارف دیکھو ۔ زمین بنجر ہو چلی تھی پھر بھی کھیتوں کی سبزی اور چمنوں کی لالی سے کوئی گوشہ بالکل خالی نہ تھا۔ 13 ویں صدی کے تمام کاروبار علم وطریقت کے اکابرواساتذہ اسی صدی میں سربرآوردہ ہوئے۔بعض بڑے بڑے سلاسل درس وتدریس کی بنیادیں اسی میں استوار ہوئیں ۔ جیسے خاندان فرنگی محلی، اور ہندوستان سے باہر بلاد عربیہ وعثمانیہ میں اکثر مشاہیر علم وارشاد جیسے شیخ ابراہیم کورانی، محمد بن احمد سفراینی النجدی، سید عبد القادر کوکبانی ، شیخ عمر فاسی تیونسی، شیخ سالم بصری، امیر محمد بن اسمعیل یمانی، شیخ عبد الخالق زبیدی ، علامہ فلائی صاحب ایقاظ، شیخ محمد حیات سندھی المدنی وغیرہم کو شاہراہ عام سے اپنی راہ الگ رکھتے تھے اور حقیقت مستورہ کے شناسا وحق آگاہ تھے۔ بایں ہمہ معلوم ہے کہ وہ جو دور آخر کے ’’فاتح‘ ‘ اور ’’سلطان عصر‘‘ ہونے کا مقام تھا اور قطبیت وقت کا وہ صرف حجۃ الاسلام شاہ ولی اللہ دہلوی رحمہ اللہ کے لیے تھا اور لوگ بھی بیکار نہ رہے ، کام کرتے رہے مگر جو کام یہاں انجام پایا وہ صرف یہیں کے لیے تھا ۔ فیضی احسنت ازیں عشق کہ دوراں امروز گرم دارد ز تو ہنگامہ ....... رسوائی را [2] مولانا حسرت موہانی نے سچ فرمایا ہے اور اس میں کسی قسم کی مبالغہ آرائی نہیں ہے بلکہ حقیقت پر
Flag Counter