Maktaba Wahhabi

382 - 389
ملک میں ایک سیاسی اورمعاشی مسئلہ جو بلوچستان کے حوالےسے ایک عرصے سے چل رہا ہے ،وہ یہ ہے کہ وہاں قبائلی عمائدین کا یہ مطالبہ ہے کہ یہاں سے نکلنے والے معدنیات ہماری ہیں لہٰذا ہمیں دیگرلوگ اسکی رائلٹی اور قیمت فراہم کریں ابن حزم کے مؤقف میں اس کی بنیاد موجود ہے ابن حزم نے اس سلسلہ میں المحلی میں بالدلائل ایک بحث کی ہے جس کے باب میں رقم طراز ہیں: وَمَنْ خَرَجَ فِي أَرْضِهِ مَعْدِنُ فِضَّةٍ، أَوْ ذَهَبٍ، أَوْ نُحَاسٍ أَوْ حَدِيدٍ، أَوْ رَصَاصٍ، أَوْ قَزْدِيرٍ، أَوْ زِئْبَقٍ، أَوْ مِلْحٍ، أَوْ شَبٍّ، أَوْ زِرْنِيخٍ، أَوْ كُحْلٍ، أَوْ يَاقُوتٍ، أَوْ زُمُرُّدٍ، أَوْ بَجَادِيٍّ، أَوْ رهوبي، أَوْ بِلَّوْرٍ، أَوْ كَذَّانٍ، أَوْ أَيِّ شَيْءٍ كَانَ فَهُوَ لَهُ، وَيُورَثُ عَنْهُ، وَلَهُ بَيْعُهُ، وَلَا حَقَّ لِلْإِمَامِ مَعَهُ فِيهِ، وَلَا لِغَيْرِهِ - وَهُوَ قَوْلُ أَبِي حَنِيفَةَ، وَالشَّافِعِيِّ، وَأَبِي سُلَيْمَانَ.وَقَالَ مَالِكٌ: تَصِيرُ الْأَرْضُ لِلسُّلْطَانِ قَالَ أَبُو مُحَمَّدٍ: وَهَذَا بَاطِلٌ لِقَوْلِ اللّٰهِ تَعَالَى: ﴿لا تَأْكُلُوا أَمْوَالَكُمْ بَيْنَكُمْ بِالْبَاطِلِ﴾[1]وَلِقَوْلِ رَسُولِ اللّٰهِ - صَلَّى اللّٰهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ -: «مَنْ أَحْيَا أَرْضًا مَيِّتَةً فَهِيَ لَهُ وَلِعَقِبِهِ» .وَلِقَوْلِهِ - عَلَيْهِ السَّلَامُ - «مَنْ غَصَبَ شِبْرًا مِنْ الْأَرْضِ طَوَّقَهُ يَوْمَ الْقِيَامَةِ مِنْ سَبْعِ أَرَضِينَ»وَلِقَوْلِهِ - عَلَيْهِ السَّلَامُ -: «إنَّ دِمَاءَكُمْ وَأَمْوَالَكُمْ عَلَيْكُمْ حَرَامٌ.» فَلَيْتَ شِعْرِي بِأَيِّ وَجْهٍ تَخْرُجُ أَرْضُهُ الَّتِي مَلَكَ بِإِرْثٍ، أَوْ الَّتِي أَحْيَا عَنْ يَدِهِ مِنْ أَجْلِ وُجُودِ الْمَعْدِنِ فِيهَا؟ وَمَا عَلِمْنَا لِهَذَا الْقَوْلِ مُتَعَلَّقًا لَا مِنْ قُرْآنٍ، وَلَا مِنْ سُنَّةٍ، وَلَا رِوَايَةٍ سَقِيمَةٍ، وَلَا مِنْ قَوْلِ أَحَدٍ قَبْلَهُ نَعْلَمُهُ، وَلَا مِنْ قِيَاسٍ، وَلَا مِنْ رَأْيٍ سَدِيدٍ، وَنَسْأَلُهُ عَنْ مَسْجِدٍ ظَهَرَ فِيهِ مَعْدِنٌ، أَوْ لَوْ ظَهَرَ مَعْدِنٌ فِي الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ، أَوْ فِي مَسْجِدِ رَسُولِ اللّٰهِ - صَلَّى اللّٰهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ - أَوْ فِي مَقْبَرَةٍ لِلْمُسْلِمِينَ؟ أَيَكُونُ لِلْإِمَامِ أَخْذُ الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ، وَأَخْذُ مَسْجِدِ رَسُولِ اللّٰهِ - صَلَّى اللّٰهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ - وَالْمَقْبَرَةِ فَيَمْنَعُ النَّاسَ مِنْ كُلِّ ذَلِكَ وَيُقْطِعُهَا مَنْ أَرَادَ؟ أُفٍّ أُفٍّ لِهَذَا الْقَوْلِ وَمَا قَادَ إلَيْهِ[2] ایسا شخص کہ جس کی زمیں سے سونا چاندی پیتل لوہا، تانبہ، سلور، نمک، کیماوی نمک ،سنکھیا، سرمہ، یاقوت وزمرد ،کرسٹل یا کوئی بھی چیز جو زمین سے نکلے وہ اس شخص کی ملکیت ہے جس کی زمین سے نکلی ہے ۔یہ معدنیات بہ طور وراثت تقسیم ہو گی اور مالک اس کو فروخت کرنے کا حق رکھتا ہے۔حکومت و قت اور سربراہ حکومت اور کسی بھی طاقت کو اس سے لینے کا حق نہیں ہے۔ یہ مؤقف امام ابو حنیفہ ،شافعی اور داؤد بن علی الظاہری کا ہے جبکہ امام مالک کا خیال ہے وہ زمین سلطان کی ملکیت میں چلی جائے ۔ ابن حزم کہتے ہیں کہ یہ مؤقف باطل ہے خدا کے
Flag Counter