Maktaba Wahhabi

341 - 389
دوسری باقی رہ گئی اور وہ یہ کہ ان کی نماز عین مامور طریقے پر تھی ۔اب جب مامور طریقے پر نماز کی ادائیگی ہوئی تو از روئے حدیث اس کو لوٹانا درست نہیں جیساکہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ایک دن میں ایک ہی نماز دو مرتبہ دہرائی نہیں جائے گی۔ عدالت و ملکیت کا اثبات مسلمان کے تہمتِ قتل و زنا و سرقہ وغیرہ سے بری ہونے اور اس کے برات کے اصلاََ ثابت ہونے کو جمہور فقہاء کے ہاں اجماعی حیثیت حاصل ہے۔ ابن حزم بھی استصحاباََ اس مسئلے پر صاد کرتے ہیں اور دلیل کے ملنے تک برات کو اصل قرار دیتے ہیں۔[1]یہی معاملہ مسلمان کے اصلاََ عادل اور مالک کے اپنی ملکیت کے ثبوت کا ہے کہ استصحاب حال کی رو سے وہ عدل و ملکیت باقی رہے گی جب تک ان کے زائل ہونے کی دلیل مہیا نہ ہو جائے ۔[2] ابن حزم اور استصحاب: چند شاذ رائیں استصحاب کے معاملے میں ابن حزم کا دائرہ اجتہاد سب سے وسیع ہے۔ اس باب میں بسا اوقات ان کے مواقف عجیب وغریب صورت اختیار کر جاتے ہیں۔ اس کی مثال پینے کی چیزوں میں نجاست کے گرنے کا حکم ہے۔ ابن حزم کا موقف ہے کہ کہ اگر پانی یا کسی کھانے پینے کی شے میں کوئی نجس چیز گر جائے تو جب تک اس کا بو ،رنگ یا وصف تبدیل نہیں ہوتا، اس کو استعمال کرنا حلال ہے۔ البتہ کتا اور چوہا ا س سے مستثنیٰ ہیں کیوں کہ ان کا ذکر نص میں ہے اور ابن حزم کے نزدیک استصحاب مقید بالنص ہے۔ [3] صاحبِ بیت کے لیے آیا یہ جائز ہے کہ وہ اپنے پڑوسی کے قریب گڑھا کھود دے کیوں کہ زمین اس کی ہے۔ ا س سے کسی کا نقصان ہوا تو کون قصور وار ہو گا؟ام مالک اس میں پڑوسی کے حق میں ضرر رسانی کو سامنے رکھتے ہوئے منع کی دلیل کو استصحاب حل کے تحت باقی رکھتے ہیں۔[4] ابن حزم اس بابت کہتے ہیں کہ شخص مذکور کو اپنی زمین پر حق حاصل ہے اور قرآن و سنت و اجماع سے کوئی دلیل اس استصحاب کو قطع کرنے والی نہیں پائی جاتی اس لیے گھر کی چھت اور پڑوسی کے پاس کے گڑھے میں کوئی فرق نہیں پایا جاتا۔۔۔ یہ سب کچھ جائز ہے جب تک اس کے خلاف دلیل نہ مل جائے۔[5] خلاصہ بحث ابن حزم اور جمہور کے مابین استصحاب کے تصور کا موازنہ کرنے سے یہ نتائج سامنے آتے ہیں:
Flag Counter