Maktaba Wahhabi

339 - 389
تمام معاملات میں محض اس بات کا انتظار رہنا چاہیے کہ وحی الٰہی میں اس حوالے سے کیا وارد ہو ہے اور بس !‘‘ "الأصل براءة الذمة ." [1] ’’انسان ذمہ داری سے اصلاََ بری ہے، جب تک اس پر الزام ثابت نہ ہو جائے۔‘‘ ابن حزم اس حوالے سے کہتے ہیں کہ جب کسی پر بدکاری یا ارتداد کا الزام لگے گا تو ہم اسے بری تصور کریں گے جب تک اس کا جرم ثابت نہ ہو جائے ،اسی طرح کسی کے فسق یا فسخ نکاح کا دعویٰ ہو تو ان تمام صورتوں میں بھی ہم سابقہ حالت پر برقرار سمجھیں گے یہاں تک کہ دلیل کی بنا پر اس کا علم حاصل نہ ہو جائے۔[2] "الیقین لا یزول بالشك."[3] ’’یقین شک سے زائل نہیں ہوتا۔ ‘‘ جمہور فقہا اس قاعدے کےبربناے استصحابِ وصف قائل ہیں۔ابن حزم بھی اسے تسلیم کرتے ہیں؛ وہ اس قاعدے کو المحلیٰ میں دو جگہ لائے ہیں؛ ایک جگہ لکھتے ہیں: "لا يحل ترك يقين لظن."[4] ’’یقین کو ظن کی بنا پر ترک کرنا جائز نہیں۔‘‘ دوسری جگہ یہ الفاظ ہیں: "لا يجوز ترك اليقين بالدعوى." محض دعوے کی بنیاد پر یقین سے دست بردار ہونا جائز نہیں۔[5] "الأصل بقاء ما کان على ما کان."[6] ’’جو جیسا تھا اسے ویسا ہی تسلیم کیا جائے گا۔‘‘ ابن حزم اس حوالے سے رقم طراز ہیں : ما وجب بيقين لم يسقط إلا بمثله [7]
Flag Counter