Maktaba Wahhabi

322 - 389
ابواسحاق شیرازی[م476ھ] نے لکھا ہے: إِذا قَالَت الصَّحَابَة قولا وَخَالفهُم وَاحِد أَو اثْنَان لم يكن ذَلِك إِجْمَاعًا . [1] ’’یعنی جب صحابہ رضی اللہ عنہم ایک بات کہیں اور ایک یا دو صحابی رضی اللہ عنہ ان سے اختلاف کریں تو یہ اجماع نہیں ہو گا۔‘‘ اسی طرح ابو حامد غزالی (م505ھ) نے بھی تصریح کی ہے کہ اقلیت اختلاف کرے تو اکثر کا اتفاق حجت نہیں ہے: الْإِجْمَاعُ مِنْ الْأَكْثَرِ لَيْسَ بِحُجَّةٍ مَعَ مُخَالَفَةِ الْأَقَلِّ. [2] امام احمد کا یہ مشہور قول ہے: من ادعى الإِجماع فقد كذب، لعل الناس قد اختلفوا، هذه دعوى بشر المَرِّيسي والأصم، ولكن [يقول] : لا نعلم، [لعل] الناس اختلفوا ولم يبلغه. [3] ’’جس نے اجماع کا دعویٰ کیا،اس نے دروغ گوئی کی کہ ممکن ہے اس میں لوگوں کا اختلاف ہو۔ یہ دعویٰ بشر مریسی اور اصم کرتے ہیں۔ اس سلسلے میں یوں کہنا چاہیے: ہمیں اختلاف معلوم نہیں۔ شاید لوگوں کا اختلاف ہو اور اسے نہ پہنچا ہو۔ ‘‘ اس سے امام احمد کی مراد بھی یہی ہے کہ تمام علما کے متعلق یہ یقین حاصل کرنا مشکل ہے کہ وہ کسی مسئلے میں یک زبان ہیں کیوں کہ علما مختلف علاقوں میں پھیلے ہوئے ہیں اور ممکن ہے کوئی اس مسئلے میں اختلاف رکھتا ہو لیکن ہمیں اطلاع نہ ہو۔ قاضی ابویعلیٰ حنبلی (م468ھ) نے اس کی توجیہ کرتے ہوئے لکھا ہے: وظاهر هذا الكلام أنه قد منع صحة الإِجماع، وليس ذلك على ظاهره، وإنما قال هذا على طريق الورع، نحو أن يكون هناك خلاف لم يبلغه. [4] ’’امام احمد کے کلام کا ظاہری مفہوم یہ ہے کہ انھوں نے صحت اجماع کا انکار کیا ہے لیکن یہ قول طاہر پر محمول نہیں ہے۔ اصل میں امام نے یہ بات ازراہِ ورع و احتیاط کہی ہے کہ شاید اس میں اختلاف ہو اور اس شخص کو اس کی خبر نہ پہنچی ہو۔‘‘ باقی اجماع اہل مدینہ اور اجماع سکوتی وغیرہ خود جمہور علما کے مابین متفقہ نہیں ہیں بل کہ خود ان کا اختلاف پایا جاتا ہے۔
Flag Counter