Maktaba Wahhabi

28 - 389
فصل دوم: امام ابن حزم کےاحوالِ زندگی خاندانی پس منظر جیسا کہ پہلے ذکر ہو چکا ہے ،ابن حزم کا خاندان قرطبہ میں شرفا کے گھرانوں میں شمار ہوتا تھا۔ابن حزم کے نسب نامہ میں مؤرخین کے مابین اختلاف واقع ہوا ہے۔مؤرخین کے ایک گروہ کے مطابق ابن حزم کا خاندان اندلس کے قدیم عیسائی خاندانوں میں سے ایک ہے۔یہ راے ابن حیان اور ان کے بالتبع مستشرقین مثلا گولد زیہر اور ڈوزی کی ہے[1]۔ابن حزم کو اندلسی النسل قرار دینے کا معاملہ مستشرقین کے ہاں اس فخر سے بھی جوڑا جا تا ہے جو عیسائی جد امجد کی بنا پر ابن حزم ایسے عبقری شخص کوعیسائی نسل سے دیکھنا اور دکھانا پسند کرتے ہیں۔شاید یہی وجہ ہے کہ مستشرقین کی غالب اکثریت نے ابن حیان کی منفرد راے کو شدومد کے ساتھ اختیار کیا ہے اور اس باب میں ثقہ اور جمہور علما کی راے سے اعتنا کرنے سے اعراض کی راہ اپنائی ہے۔اس موقف کے لیے سب سے بڑی دلیل یہ دی گئی ہے کہ اندلسی النسل ہونا فخر و شرف کی علامت نہ تھا اور بنو امیہ کا حامی ہونے کی بنا پرفارس سے نسبت ایک قابل فخر امر ہے اس لیے بعد میں ان کا نسب فارس کی طرف منسوب کر دیا گیا۔اس دلیل کا خام ہونا محض زمانی لحاط سے بھی ظاہر و باہر ہے کہ ابن حزم کے والدمنصور عامری اور اس کے بیٹے المظفر کے وزیر تھے نہ کہ بنو امیہ کے کہ انہیں اندلسی ہونے پر کسی قسم کی شرمندگی کا اندیشہ ہوتا یا بنو امیہ کے حلیف ہونے کی بنا پر ان کی عزت میں ضافہ ہو سکتا! الٹا عامریوں نے حکومت امویوں سے ہی چھینی تھی اور ایسے میں بنو امیہ کا حلیف ہونا الٹا نقصان دہ ثابت ہو سکتا تھا،اس لیے یہ استدلال قابل اعتبار نہیں ہے۔ محقق ابو زہرہ کی تحقیق کے مطابق جمہور مفکرین یہ راے رکھتے ہیں کہ اسلام اور عرب سے حافظ ابن حزم کا خاندانی تعلق حضرت عمر کے دور ہی سے قائم ہے۔اس راے کے مطابق ابن حزم کے جد اعلیٰ یزید تھے جوحضرت امیر معاویہ کے بھائی یزید بن ابو سفیان[2] کے مولیٰ تھے[3]۔یزید الفارسی نے عیسائیت سے اسلام قبول کیا۔یہی راے قابلِ ترجیح معلوم ہوتی ہے کیونکہ ابن
Flag Counter