آطام و حصون آطام (گڑھیوں)اور حصون (قلعوں) کا ذکر بلا عموم یثرب کے یہودی قبیلوں یا ان کے ہم مذہبوں کے خیبر کے قلعوں کے حوالے سے آتا ہے۔ ان غیر مسلم قلعوں اور گڑھیوں نے بھی عہد جاہلی میں تعمیراتی فن کے ارتقاء کا خاص عمدہ ثبوت بہم پہنچایاتھا۔ مکی عہد نبوی میں اسلامی قلعوں اور حصون کا ذکر اوس و خزرج کے بعض بطون اور ان کے شیوخ و سادات کے حوالے سے بھی آتا ہے۔ قبل بعث کے واقعات میں رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے یثرب کے اولین سفر کے دوران خاندان بنو عدی بن النجارکے اطم یا گڑھی کا ذکر آیا ہے جس کے تالاب میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم پیرتے تھے یا یثربی بچیوں کے ساتھ کھیلا کرتے تھے۔ اس کے بعض علاقوں کا بھی ذکر روایات میں ملتا ہے۔ مسلم قلعوں اور گڑھیوں میں حسب ذیل اہم ترین تھے: 1۔ فارع کا قلعہ۔ حضرت حسان بن ثابت رضی اللہ عنہ حزرجی کا جو خاصا وسیع قلعہ تھا۔ 2۔ قلعہ بنی حارثہ جو حضرت سعد بن معاذ اوسی رضی اللہ عنہ کا قلعہ تھا۔ 3۔ اطم دلیم بن حارثہ انصاری، وہ حضرت سعدبن عبادہ رضی اللہ عنہ خزرجی کا قلعہ تھا۔ اور بہت وسیع وعریض تھا اور جس میں متعدد تعمیرات تھیں۔ 4۔ اجم، اطم بنی ساعدہ جو مشہور قلعہ و گڑھی تھا۔ ان کے علاوہ متعدد دوسرے قلعے اور آطام یثرب میں مکی دور کے مسلمانوں کے تھے۔ بحرین کے قبیلہ عبدالقیس کے قلعہ جواثی کا ذکر بطور اسلامی قلعہ ملتا ہے۔ امکان ہے کہ اس کے علاوہ بعض قلعے اور آطام اس علاقے میں تھے۔ ثقیف و طائف کے قلعہ کا ذکر آچکا ہے کہ پورا شہر ایک عظیم ووسیع فصیل کے درمیان میں آباد تھا اور وہ قریب قریب ناقابل تسخیر تھا۔ آطام نسبتاً چھوٹے قلعے تھے اور حصون ان سے کافی بڑے قلعے اور تعمیرات۔ |