فنی لحاظ سے دار ایک معنی محلہ کے مترادف تھا لیکن وہ خاص مکانات کے اعتبار سے گھر کے ارد گرد چار دیواری کا نام تھا۔ دار(جمع دور) کےحدود میں ایک وسیع و عریض صحن ہوتا تھا جو فناء کہلاتا تھا اور وہ اکثر و بیشتر مکانات کے چاروں طرف ہوتا تھا۔ ان کے بیچ میں اصل گھر (بیت) ہوتا تھا۔ اس میں کئی کمرے ہوتے تھے اور ان کی تعمیر بالعموم پتھروں کی دیواروں اور چھوٹی پٹی کی تختیوں سے بنی چھت ہوتی تھی۔ افراد خاندان کے الگ الگ کمرے ہوتے تھے خواہ وہ چھوٹی کوٹھریاں ہوں یا معمولی کولکیاں۔ ان میں دروازے ہوتے تھے جو ایک پٹ یا دو پٹ کے ہوتے تھے۔ بیت یا گھر سے باہر جانے کے بھی ایک یا کئی دروازے ہوتے تھے۔ پچھواڑے بالعموم ایک دریچہ یا خوخہ ہوتا تھا جو ہنگامی حالات میں نکلنے کا راستہ تھا۔ حافظ ابن حجر کے مطابق خوخہ ایک پٹ کا چھوٹا سا دروازہ ہوتا تھا اور بسااوقات وہ بلا پٹ کا ہوتا اور دیواریں صرف ایک تنگ در کی صورت رکھتا تھا۔ ”کوہ“نامی روشندان بھی ہوتا تھا جیسا کہ حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ کے مکان مکہ میں تھا۔ دو مکانات کے بیچ میں ایک دریچہ کلام بھی رکھا جاتا تھا۔ مکانات امراء واکابر خاصی بڑی تعمیرات ہوتی تھیں جبکہ عوام اور اوسط درجہ کے مکانات چھوٹے ہوتے تھے۔ اوربیشتر کے محض جھونپڑے۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے اسلام کے باب میں ان کے بہن و بہنوئی کے مکان کی ساخت کا پتہ چلتا ہے کہ مکان کے اندر ایک خاص کوٹھری (مخدع) ہوتی تھی جس میں حضرت خباب بن ارت رضی اللہ عنہ چھپ گئے تھے۔ دارارقم کے بارے میں بھی کچھ تفصیل ملتی ہے کہ اس کا دروازہ تھا جس کے پٹوں میں درازیں تھیں جن سے حضرت حمزہ رضی اللہ عنہ نے حضرت عمر رضی اللہ عنہ کو باہر کھڑے دیکھا تھا۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے اجازت طلبی کے لیے دروازہ کھٹکھٹایا تھا۔ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کا استقبال حجرہ میں کیا تھا۔ اپنی دوسری روایت میں ابن اسحاق نے حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے تعاقب نبوی کے حوالے سے دارالرقطاء اور اس کے مکانات کاذکر کیا ہے۔ (212)۔ |