وہ دراصل پورے ایک شہر ہوتے تھے اور ہر قلعہ یا اطم اپنے پورے قبیلہ یا بطن یا خاندان کی آبادی کو اپنے اندر بسا لیتا تھا۔ جیسے آطام بنی قینقاع و بنی النضیر وغیرہ یثرب میں تھے۔ بعض بعض حصون خیبر میں قریب قریب دس ہزار سپاہ پر مشتمل فوج رہ سکتی تھی۔ اس میں اتنی گنجائش اور اتنی تعمیرات ہوتی تھیں۔ ان میں رہائش گاہوں کے علاوہ تالات اور کنوئیں بھی ہوتے تھے۔ اور پانی حاصل کرنے کے دوسرے ذرائع یا آب رسانی کی خاص تعمیرات۔ مکی عہد نبوی میں ان میں مساجد بھی تعمیر کر لی گئی تھیں۔ تمدنی لحاظ سے وہ اسلامی قلعے اور گڑھیاں مہمان خانے اور ضیافت گاہیں بھی تھیں کہ ہر کس وہ ناکس کوروزانہ ان میں کھانا کھانے کے لیے بلایا جاتا تھا۔ اور ان سے خوان نعمت نیچے آباد بستیوں کے لیے اترتے تھے جیسے : اطم ولیم کے بارے میں روایات ملتی ہیں۔ وہ قریب قریب چھوٹے سے شہر ہوتے تھے یا بڑے محلات جن میں کافی لوگ سکونت رکھتے تھے اوقر ارد گرد فصیلوں کے سبب محفوظ بھی رہتے تھے۔ ان فصیلوں میں متعدد دروازے دیو پیکر دروازے ہوتے تھے جن کے اندر توپیں وغیرہ بھی جا سکتی تھیں اور گھوڑا سوار آتے جاتے تھے(213) کنوئیں اور باغات چاہ زمزم کے علاوہ مکہ مکرمہ میں متعدد کنوئیں (بئر، آبار) جاہلی دور میں کھودے گئے تھے جو مکی عہد نبوی میں بھی زیر استعمال تھے۔ مکہ مکرمہ کی آبادی خاصی بڑی تھی اور وسیع وعریض علاقے پر پھیلی تھی۔ چاہ زمزم کا پانی ان کی کفایت کر سکتا تھا مگر اس کالانا مشکل کام تھا۔ مختلف بطون قریش نے اور ان کے اکابر وسادات نے خاص رفاہی مقاصد سے اپنے اپنے علاقوں میں کنوئیں کھدوائے تھے۔ ان کے اسماء اور ان کی جوہ تسمیہ کافی دلچسپ ہیں۔ ان کا ایک مفصل بیان ابن اسحاق نے اپنی سیرت میں کیا ہےجوازرقی وغیرہ نے نقل کیا ہے۔ کنواں کھودنا بہر حال خاص مشکل فن تھا اور مکہ مکرمہ کی پتھریلی زمین میں ان کا کھودنا کافی مہارت کا طالب تھا۔ یقینی ہے کہ |