’’بیشک ان تاریخی روایات کی تحلیل جن کے متعلق مستشرقین اور جدید مؤرخین کوشش کرتے ہیں کہ انہیں لوگوں میں پھیلایا جائے ؛ یا تو وہ غلط روایات پر مبنی ہیں ؛ یا پھر مسخ شدہ دلائل ہیں ؛ یا پھر فاسد نتائج ہیں ۔‘‘[1] اس کی گواہی ایک عیسائی نے بھی دی ہے۔ بندلی جوزی کہتا ہے : ’’بیشک ان مؤرخین نے اپنے نظریات و احکام کی بنیاد صرف مغرب کی تاریخ پر رکھی ہے۔اس لیے کہ انہیں مشرق کی تاریخ کے متعلق بہت ہی کم علم تھا۔ اس کو سمجھنا ہمارے لیے بہت آسان ہے ۔اس کا اندازہ اس حالت سے لگایا جاسکتا ہے جو کہ اہل غرب کے ہاں اہل مشرق کے متعلق اقوال اور تاریخ میں جو کچھ عجیب و غریب باتیں پائی جاتی ہیں ۔‘‘[2] شیخ محمد قطب کہتا ہے: ’’ میں مستشرقین کی کتابیں پڑھا کرتا تھا۔جس کے بعد مجھے انصاف کی روح اور علمی بحث کی روح کے متعلق یقین کا مل ہوگیا؛ جس کے متعلق وہ لوگ دعویٰ کیا کرتے تھے۔اور میں بعض ان اہل علم لوگوں کی کتابیں بھی |