بیان کرتے۔ میں ۱۹۸۸ء میں اسکول میں داخل ہوئی اور ابھی اسکول کا پہلا ہی دن تھا اور خوش تھی۔ جب اسکول سے واپس آئی تو سب گھر والے بھی خوش تھے اور اسکول کے متعلق مختلف قسم کے سوالات کر رہے تھے۔ تمھارا اسکول کیسا ہے؟ وہاں کا ماحول کیسا ہے؟ ٹیچر کیسے ہیں ؟ وغیرہ وغیرہ۔ وہاں میں نے اپنی کلاس کے تعارف میں ایک بات یہ بھی بتائی کہ ہماری کلاس میں ایک بہت بڑا سلیٹا(اپنی دانست میں سلیٹ کا اسم مکبر)بھی ہے۔سب محظوظ ہوئے اور بات ختم ہوئی۔ پھر جب ۲۰۰۴ء میں میری سکول میں بطور معلم تقرری ہوئی تو ابو جی نے پوچھا: ’’ہاں بتاؤ! اب تمھارے سکول میں سلیٹا ہے یا نہیں ؟‘‘ ان کی یادداشت کا ایک اور واقعہ سنیے۔ ۲۰۱۱ء میں ابو جی رحمہ اللہ کا چنگ چی رکشے سے ایکسیڈنٹ ہوا، جس میں بازو پر ضرب لگی۔ میں بھی لاہور انھیں ملنے آئی، جب ہسپتال سے ڈسچارج ہوئے تو ڈاکٹر نے بازو کی ورزش(Exercise)کا بھی کہا، گھر آئے تو مجھے کہنے لگے کہ ڈاکٹر نے ورزش کا کہا ہے، ورزش کا کوئی نقصان نہیں ہے، اس میں ہینگ لگتی ہے نہ پھٹکری۔ یہ وہ جملہ ہے جو میں نے اپنی تیسری یا چوتھی جماعت کے پرچے میں لکھا تھا، آج انھوں نے وہ دہرا دیا اور مسکراتے ہوئے کہنے لگے کہ تمھیں کچھ یاد آیا؟ میں نے ابو جی رحمہ اللہ کو کبھی ما یوس نہیں دیکھا، اللہ سے شکوہ کناں ہوتے نہیں پایا۔ میں نے اپنی فیملی میں کسی ایسے بوڑھے جوان کو نہیں دیکھا، جو خود بھی کام میں جتا رہے اور دوسروں کو بھی تلقین کرے، یہ یہی وجہ ہے کہ انھیں دیکھ کر ہمیشہ یہی گمان ہوا ؎ بلند تر ہیں حوصلے، شباب پر ہیں ولولے گرفت میں ہیں آسماں کئی جہت کئی صبح جہاں ستمبر ۲۰۱۵ء میں ابو جی رحمہ اللہ گاؤں آئے تو اتفاقاً میرے بیڈ روم میں قیام کیا۔ کوئی ایک ہفتہ یہاں رہے۔ ہم ان کے وضو کے لیے گرم پانی کا اہتمام کرتے اور انھیں ان کی ضرورت کی ہر چیز فراہم کرنے کی کوشش کرتے، وہ خوش ہوتے اور دعا دیتے۔ وہ اس بات پر خوش تھے کہ میں نے اپنے کمرے کی دیوار ہی میں کچھ کتابیں سجا رکھی ہیں ۔ انھوں نے مجھے کئی بار پی ایچ ڈی کرنے کا کہا، لیکن اپنی نجی مصروفیات کے باعث جی اچھا، ابوجی! کہتی رہی۔ اللہ کرے مَیں ان کی یہ خواہش بھی پوری کر سکوں ۔ میری ابو جی رحمہ اللہ سے جب بھی فون پر بات ہوتی تو سب سے پہلے ثوبان کا پو چھتے اور پھر با قی سب کا۔ اور پھر دوسری بات یہ پوچھتے کہ آپ نے لاہور کب آنا ہے؟ میں کہتی: جی ابو جی! آؤں گی۔ یہی کہتی رہی لیکن نہ جاسکی، دراصل ۲۰؍ دسمبر ۲۰۱۵ء کو محمد ریان سوا ماہ کا ہوا اور ابو جی رحمہ اللہ اسی روز کمر درد کے با عث میو ہسپتال میں داخل ہو گئے، پھر ۲۲؍ دسمبر کی صبح تقریباً پونے چھے بجے مجھے اُن کی وفات کی اطلاع ملی تو میری زبان سے ’’إنا للّٰہ و إنا إلیہ راجعون‘‘ کے بعد بے ساختہ یہی الفاظ نکلے۔ ابو جی!… ’’گزر گئی گزران‘‘۔ اس کے ساتھ ہی میری تمام مصروفیات ختم ہو گئیں |
Book Name | ارمغان مورخ اہل حدیث مولانا محمد اسحاق بھٹی |
Writer | حمید اللہ عزیز |
Publisher | ادارہ تفہیم الاسلام احمدپورشرقیہ، بہاول پور/ دار ابی الطیب، گوجرانوالہ |
Publish Year | مارچ 2016ء |
Translator | |
Volume | |
Number of Pages | 924 |
Introduction |