Maktaba Wahhabi

649 - 924
ہونے کے بعد کپڑے پر کوئی نشان پڑ جاتا یا کوئی بچہ گندے ہاتھ لگا دیتا تو فوراً کپڑے تبدیل کرتے اور کوئی اور سوٹ پہن کر دفتر جاتے۔ ابو جی رحمہ اللہ لڑکیوں سے اپنے بو ٹ پالش نہ کرواتے، البتہ اگر ان کا مطلو بہ کوئی سوٹ استری شدہ نہ ملتا تو ڈا نٹ پلاتے۔ انھیں منافقت نہیں آتی تھی، جس کی جو بات بری لگتی، وہ اس کے سامنے بیان کر دیتے اور بعض اوقات تو سب کے سا منے برس پڑتے۔ خوراک بالکل سادہ، خاص طور پر مرغن کھانوں سے پرہیز کرتے۔ ان کی مرغوب غذا مچھلی، شہد، دودھ اور گڑ رہا۔ گڑ والے چاول، گڑ والی سویاں ، گڑ والا حلوہ جسے کبھی کبھی از راہِ مذاق ’’کڑا‘‘ بھی کہتے، بہت شوق سے بنواتے۔ جب پوچھا جائے کہ آج کیا پکائیں تو ہنستے اور کہتے: مجھے شہد یا دودھ کے ساتھ روٹی دے دینا۔ اس کے علاوہ ساگ اور مکئی کی روٹی خود بھی کھاتے اور اپنے دوستوں کو بھی بہت شوق سے دعوت دیتے اور وہ بھی خوش دلی سے اس دعوت کو قبول فرما تے۔ ابو جی رحمہ اللہ ایک وسیع المطالعہ، وسیع القلب اور وسیع المشرب شخصیت کے ما لک تھے۔ ان کے حلقہ احبا ب میں ہر مذہب، ہر مسلک، ہر عہدے اور ہر عمر کے لوگ شامل رہے۔ وہ ہر ملنے والے سے اس کی ذہنی سطح کے مطابق گفتگو فرماتے۔ ابو جی رحمہ اللہ میری ذات کا ایک معتبر حوالہ ہیں ۔جب میں جی سی یو نیورسٹی لاہور میں ایم اے اردو میں داخلے کے لیے انٹرویو دینے گئی تو وہاں پہلا سوال میرے نام ہی سے متعلق تھا، جسے میں نے واضح کیا کہ یہ قرشت والے ’’ق‘‘ سے ہے اور ’’قدس‘‘ سے فعیل کے وزن پر ’’قدیس‘‘ اور مونث بنا نے کے لیے ’’ہ‘‘ کا استعمال ہے، مزید یہ بھی بتایا کہ قدیس ایک قیمتی ہیرے کو بھی کہتے ہیں ۔ وہ پینل خوش ہوا۔ پھر گھر کے پتے کو دیکھتے ہوئے سوال اٹھایا کہ آپ کے علاقے میں کوئی ادیب بھی ہے؟ تو میں نے ابو جی رحمہ اللہ کا نام لیا، وہاں موجود ایک استادِ محترم نے کہا کہ اب آپ نے ایک بھاری بھر کم شخصیت کا نام لے لیا ہے، آپ اپنا دا خلہ یقینی سمجھیں اور فیس جمع کروائیں ۔ لیکن میں نے پنجاب یو نیورسٹی اورینٹل کالج میں داخلہ لیا، وہاں ڈاکٹر تحسین فراقی، ڈاکٹر اورنگ زیب عالمگیر اور ڈاکٹر زاہد منیر عامر سے ابوجی رحمہ اللہ کے مراسم تھے۔ انھوں نے مجھے اپنا تعارف کروانے کا بھی کہا، لیکن میں اپنی نالائقی کی وجہ سے ذکر نہ کرتی۔ خیر آہستہ آہستہ میں نے اپنا تعارف کروا دیا۔ ایک مرتبہ سر زاہد کے پاس ایک اسائنمنٹ جمع کروانے گئی تو وہاں ڈاکٹر خورشید رضوی صاحب تشریف فرما تھے۔ سر زاہد نے انھیں بتایا کہ یہ محمد اسحاق بھٹی صاحب کی بھتیجی ہے۔ ڈاکٹر خورشید رضوی صاحب بہت خوش ہوئے اور انھوں نے ابو جی رحمہ اللہ کی صحت و مصروفیت کا پو چھا۔ مجھے یہ سب بہت اچھا لگا۔ اسی طرح ایم اے کرنے کے بعد ایم فل میں داخلے کی خواہش نے جنم لیا تو ایم فل کے دا خلہ فارم میں ایک حصہ ٹیچر کے ریفرنس کا تھا۔ جسے میں نے سر زاہد سے fill کروایا، اس فارم پر درج ایک جملہ: ’’متعلمہ ایک علمی روایت کی امین ہے‘‘، میرے پاس محفوظ ہے اور میرے لیے باعثِ فخر ہے۔ یہ احساسِ تفاخر ابو جی رحمہ اللہ ہی کی وجہ سے در آیا۔ اللہ تعالیٰ نے ابو جی رحمہ اللہ کو ماشاء اللہ بہت اچھے حافظے سے نوازا تھا، وہ واقعات کو تمام جزئیات کے ساتھ
Flag Counter