Maktaba Wahhabi

463 - 924
بڑی اکثریت علمائے کرام کی تھی، پورے ملک میں پھیل گئے۔ انھوں نے مسجدوں اور دینی مدرسوں کو اپنے مراکزِ عمل قرار دیا اور جدوجہد کی رفتار تیز کی۔ اسی اثنا میں ۱۸۵۷ء کا زمانہ آیا تو جماعتِ مجاہدین کے ارکان نے اس میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیا اور انگریز کی مخالفت کو جہاد سے تعبیر کیا اور جنرل بخت خاں کے دہلی میں آنے بعد ۴؍ جولائی ۱۸۵۷ء کو ایک فتویٰ مرتب کیاگیا، جس میں واضح کیا گیا کہ انگریزوں کے خلاف اب جہاد کا وقت آگیا ہے اور اس میں حصہ لینا ہرمسلمان کا فرض ہے۔ یہ فتویٰ اس زمانے کے جن اخباروں میں شائع ہوا، ان میں ایک کا نام ’’ظفر الاخبار‘‘ تھا۔ اس فتوے پر چونتیس علمائے کرام کے دستخط ثبت ہیں ، حضرت سید میاں نذیر حسین دہلوی رحمہ اللہ کا اسم گرامی پانچویں نمبر پر مرقوم ہے۔ اس زمانے میں وہابی اور باغی کو انگریزوں نے مترادف لفظ قرار دے دیا تھا، یعنی وہابی اور باغی کے ایک ہی معنی تھے۔ ہر وہابی انگریزی حکومت کا باغی قرارپایا۔ چناں چہ مولوی ذکاء اللہ لکھتے ہیں : ’’دہلی میں جب باغی سپاہ کے افسر اعلیٰ بخت خاں و غوث محمد خاں ومولوی امام خاں رسال دار جمع ہوئے اور اُن کے ساتھ مولوی عبدالغفار اور مولوی سرفراز علی آئے تو پھر وہابیوں کا اجتماع دہلی میں شروع ہوا اور مولوی سرفراز علی کو جہادیوں کا سرگرم کا رکن قرار دیا گیا اور امام المجاہدین اس کا معاون ہوا۔‘‘ ایک جگہ لکھا ہے: ’’وہابیوں کا اجتماع دہلی میں شروع ہوا تو مولوی سرفراز علی جہادیوں کا میرِ لشکر اور بخت خاں اس کا معاون ہوا۔‘‘ حکیم احسن اللہ خاں کا بیان ہے: ’’اس ہنگامے(یعنی ۱۸۵۷ء)میں وہابیوں نے نمایاں حصہ لیا اور نہ صرف ٹونک سے، بلکہ ہر جگہ سے وہابی آئے۔ بخت خاں خود وہابی تھا۔ انھوں نے فتویٰ بھی چھاپا کہ مسلمان اس مذہبی جنگ کے میدان میں آجائیں ۔ جے پور، بھوپال، ہانسی، حصار وغیرہ سے بھی وہابی دہلی میں آئے۔‘‘ ایک جگہ حکیم احسن اللہ خاں بیان کرتے ہیں : ’’(دہلی میں )بخت علی خاں کی آمد پر بہت سے وہابی(اس جنگ میں )شامل ہوئے۔‘‘ ۱۸۵۷ء کی جنگ میں میاں سید نذیر حسین دہلوی، مولانا احمد اللہ شاہ مدراسی، مولانا عبدالجلیل علی گڑھی، مولانا محمد جعفر تھانیسری، مولانا لیاقت علی الہ آبادی، مولانا رحمت اللہ کیرانوی، مفتی عنایت احمد کاکوروی، مفتی مظہر کریم دریابادی، مولانا ایوب خاں کیفی اور دیگر بہت سے حضرات شامل ہیں ۔ ان علمائے کرام میں سے بعض حضرات نے درجۂ شہادت پایا، بعض کو قید خانوں میں ڈال دیا گیا، بعض کو کالے پانی بھیجا گیا اور بعض ہجرت کر کے حجاز مقدس چلے گئے۔ حضرت میاں سید نذیر حسین رحمہ اللہ کو دہلی سے گرفتار کر کے راولپنڈی لایا گیا اور وہ تقریباً ایک سال راولپنڈی جیل میں رہے۔ دہلی سے راولپنڈی کم و بیش ایک ہزار کلو میٹر کے فاصلے پر ہے۔ دہلی سے راولپنڈی تک بہت سے شہر
Flag Counter