Maktaba Wahhabi

462 - 924
درجۂ شہادت پایا۔ اس تحریک کے بعد انگریزوں کے خلاف ملک میں یکے بعد دیگرے کئی تحریکیں اُٹھیں ۔ سید احمد شہید رحمہ اللہ اور مولانا اسماعیل دہلوی رحمہ اللہ کی تحریک خالص علمائے کرام کی تحریک تھی اور سلسلۂ جہاد کی زمامِ قیادت علماء ہی کے ہاتھ میں تھی۔ ان علمائے کرام میں مولانا اسماعیل دہلوی، مولانا عبدالحی بڈھانوی، مولانا کرامت علی جون پوری، حضرت سید نواب صدیق حسن خاں کے والد مکرم مولانا سید اولاد حسن قنوجی، مولانا ولایت علی عظیم آبادی، مولانا سید محمد علی رام پوری رحمہم اللہ اور دوسرے بہت سے اہلِ علم شامل تھے۔ برصغیر میں احیائے دین کی یہ پہلی باقاعدہ تحریک تھی، جس کا اساسی نقطۂ نظر خالص کتاب و سنت کی اشاعت و ترویج اور مسلمانوں کو دعوت جہاد دے کر غیر ملکی اقتدار کا خاتمہ کرنا تھا۔ اسی مقصد کے حصول کے لیے ان لوگوں نے اپنے گھر بار کو خیر باد کہا اور آرام و آسایش کی زندگی ترک کرکے اپنے آپ کو بے پناہ تکلیفوں اور اذیتوں کے حوالے کیا۔ خوشی اور مسرت کے ساتھ جذبۂ جہاد سے سرشار ہوکر ان نفوسِ قدسیہ نے اپنے مساکن سے کوچ کیا اور سرحد پار کے علاقے کو، جو انگریزوں کی دست رس اور غیر مسلموں کی عمل داری سے باہر تھا، اپنا مرکز قرار دیا۔ ان کا پہلا قافلہ ۷؍ جمادی الاخریٰ ۱۲۴۱ھ(مطابق ۱۷؍ جنوری ۱۸۲۶ء)کو امیرالمجاہدین سید احمد شہید رحمہ اللہ کی قیادت میں روانہ ہوا تھا، جو مختلف علاقوں کا چکر کاٹتا ہوا آزاد قبائل میں پہنچا تھا۔ مجاہدین کے اس قافلے نے جو پانچ اور چھے سو کے درمیان غازیوں پر مشتمل تھا، جیسے ہی آزاد مرکز میں پڑاؤ ڈالا، رنجیت سنگھ کی سکھ فوج بدھ سنگھ جرنیل کی قیادت میں مقابلے کو نکل آئی اور لڑائی کا آغاز ہوگیا۔ پہلی لڑائی اکوڑہ خٹک کے مقام پر ہوئی تھی۔ پھریکے بعد دیگرے مختلف اوقات اور مقامات میں کئی لڑائیاں ہوئیں ۔ آخری لڑائی ۲۴؍ ذی الحجہ ۱۲۴۶ھ(مطابق ۶؍ مئی ۱۸۳۱ء)کو بالا کوٹ کے میدان میں ہوئی، جس میں سید احمد بریلوی، مولانا اسماعیل دہلوی اور بہت سے حضرات جامِ شہادت نوش کر گئے۔ یہ مقابلے سکھوں کے ساتھ ہوئے تھے۔ اس سے چند سال بعد سکھوں کی حکومت ختم ہوگئی تو جماعتِ مجاہدین کی، جو ایک مستقل تحریکِ آزادی کی شکل اختیار کرگئی تھی، براہِ راست انگریزی حکومت سے ٹکر شروع ہوگئی۔ یہ ایک منظم اور باقاعدہ تحریک تھی جو علمائے کرام پر مشتمل تھی اور یہ علمائے کرام اہلِ حدیث مسلک کے حامل تھے۔ اس تحریک کا آغاز جنوری ۱۸۲۶ء میں ہوا تھا اور برصغیر کی انگریزی حکومت کا مقابلہ کیا اور اسے سخت پریشانی میں مبتلا کیے رکھا اور اس کی بنیادیں ہلا ڈالیں ۔ اتنی طویل عمر برصغیر کی کسی سیاسی جماعت نے نہیں پائی، جتنی علمائے اہلِ حدیث کی اس جماعت نے پائی۔ پھر انگریزی حکومت کے ہاتھوں اس نے جتنی تکلیفیں اٹھائیں اور کسی جماعت نے نہیں اُٹھائیں ۔ معرکۂ بالا کوٹ کے بعد اس جماعت کے ارکان نے نئے انداز سے اپنی تگ و تاز مجاہدانہ کا سلسلہ شروع کیا اور برصغیر کی انگریزی حکومت کے خلاف ایک اور اسلوب سے میدانِ وِغا میں اتری۔ اس کے ارکان، جن میں بہت
Flag Counter