آباد ہیں اور ہر شہر میں کئی ایک جیل خانے ہیں ، لیکن میاں صاحب رحمہ اللہ کو راولپنڈی جیل میں لاکر قید کیا گیا۔ یہ بہت بڑی سزا تھی کہ کوئی شخص اتنا طویل سفرکرکے ان سے ملاقات بھی نہ کرسکے۔ اس زمانے میں نہ موجودہ دور کی طرح پختہ سڑکیں تھیں ، نہ موٹروں کا کوئی وجود تھا، نہ ٹرینیں چلتی تھی۔ لوگ گھوڑوں ، خچروں اور اونٹوں پر سفرکرتے تھے اور سومیل کا سفر کئی دن میں طے ہوتا تھا۔ اندازہ کیجیے دہلی سے راولپنڈی کا ہزار میل کا سفر کتنی مدت میں طے ہوتا ہوگا؟! پھر وہابی تحریک کا سلسلہ چلا اور علمائے کرام اور اُن سے تعلق رکھنے والوں پر بغاوت کے مقدمات قائم کیے گئے۔ اس سلسلے کا پہلا مقدمہ انبالے میں قائم ہوا تھا۔ انبالہ اس زمانے میں پنجاب کا شہر تھا، اب ہندوستان کی نئی صوبہ جاتی تقسیم کے اعتبار سے ہماچل پردیش کا شہر ہے۔ انبالہ میں مقدمہ قائم ہونے کی وجہ سے برصغیر کی سیاسی تاریخ میں اسے انبالہ کیس یا مقدمہ انبالہ کے نام سے موسوم کیا جاتا ہے۔ اس مقدمۂ بغاوت کے گیارہ ملزم تھے، جن کا ۲؍ مئی ۱۸۶۴ء کو فیصلہ سنایا گیا۔ وہ تھے مولانا یحییٰ علی عظیم آبادی، مولانا محمد جعفر تھانیسری، مولانا عبدالرحیم عظیم آبادی، منشی عبدالکریم، شیخ محمد شفیع اور دیگر حضرات۔ ان میں سے بعض کو حبسِِ دوام بعبور دریائے شور اور ضبطی جائیداد کا حکم سنایا گیا۔ اس کے بعد دوسرا مقدمہ عظیم آباد کا مقدمۂ بغاوت قائم ہوا۔ ہندوستان کے صوبہ بہار کے موجودہ دارالحکومت پٹنہ کو اس زمانے میں عظیم آباد کہا جاتا تھا۔ اس مقدمے کے ملزم مولانا احمد اللہ عظیم آبادی تھے۔ ترتیبِ مقدمات کی روسے یہ دوسرامقدمۂ بغاوت تھا، جسے وہابی مقدمۂ بغاوت کہا جاتا ہے۔ مولانا احمد اللہ کو ۲۷؍ فروری ۱۸۶۵ء کو قمری حساب سے ۲۹؍ رمضان ۱۲۸۱ھ کو وہی سزا سنائی گئی جو مقدمہ انبالہ کے ملزموں کو سنائی گئی تھی اور انھیں بیڑیوں اور ہتھکڑیوں میں جکڑ کر کالے پانی روانہ کر دیا گیا۔ تیسرا مقدمۂ بغاوت صوبہ بنگال کے ایک مقام مالدہ میں قائم کیا گیا۔ اس کے ملزم مولوی امیر الدین وغیرہ تھے، جنھیں ’’ہمارے ہندوستانی مسلمان‘‘ کا مصنف ڈاکٹر ہنٹر وہابیوں کا بہت بڑا حامی اور معاون قرار دیتا ہے اور مالدہ کو ’’وہابیوں کی تحریک جہاد کے مرکز‘‘ سے تعبیر کرتا ہے۔ مولوی امیر الدین پر وہابی مقدمۂ بغاوت ۱۸۷۰ء میں قائم ہوا تھا۔ ان کی جائیداد ضبط کر کے انھیں کالے پانی روانہ کر دیا گیا اور یہ مارچ ۱۸۷۲ء کو وہاں پہنچے۔ ۱۸۷۰ء ہی میں راج محل کا مقدمۂ بغاوت قائم کیا گیا، جس کے ملزم ابراہیم منڈل وغیرہ تھے، انھیں اکتوبر ۱۸۷۰ء میں حبسِ دوام بعبور دریائے شور اور ضبطی جائیداد کی سزا ہوئی۔ ۱۸۷۱ء میں عظیم آباد(پٹنہ)میں ایک اور مقدمۂ بغاوت قائم ہوا، اس مقدمے کے سات ملزم تھے اور وہ تھے مولانا مبارک علی، مولانا تبارک علی، حاجی دین محمد، حاجی امین الدین، پیر محمد، حشمت داد خاں اور امیر خاں ۔ یہ بھی علمائے دین تھے۔ اس مقدمے کی سماعت یکم مئی ۱۸۷۱ء کو انگریز سیشن جج نے شروع کی اور ۱۸۷۱ء کے آخر میں فیصلہ |
Book Name | ارمغان مورخ اہل حدیث مولانا محمد اسحاق بھٹی |
Writer | حمید اللہ عزیز |
Publisher | ادارہ تفہیم الاسلام احمدپورشرقیہ، بہاول پور/ دار ابی الطیب، گوجرانوالہ |
Publish Year | مارچ 2016ء |
Translator | |
Volume | |
Number of Pages | 924 |
Introduction |