بلاشبہہ ایک نئے طرز کی تاریخ نویسی ہے، جس کے آغاز بلکہ معراج کا سہرا ممدوح موصوف کے سر ہے۔ اسی طرح اگر ان کو اپنی ذات میں انجمن قرار دیاگیا ہے تو بھی یہ ایک ایسی حقیقت کا اظہار ہے جس پر ان کا کام شاہدِ عدل ہے کہ ہمہ جہت مصروف زندگی گزارنے والا درویش منش اتنا اہم اور وسیع کام کرتا ہے، جو نہ کثرتِ وسائل سے مالا مال ہے نہ کوئی ٹیم ورک رکھتا ہے نہ اپنی علمی مصروفیت کو غمی و خوشی کے مواقع میں شرکت کا بہانا بتاتا ہے۔ وہ دوستوں کی دوستی کا حق بھی ادا کرتا ہے۔ تقریبات میں شمولیت بھی لازمی سمجھتا ہے۔ خانگی معاملات سے بھی لاتعلق نہیں ، پیرانہ سالی کا بھی مقابلہ کرتا ہے، پھر بھی اتنا وقیع تخلیقی کام انجام دیتا ہے تو اسے اپنی ذات میں انجمن ہی کہنا چاہیے۔ بلکہ حقیقت تو یہ ہے کہ جس قدر کام حضرت موصوف مرحوم نے انجام دیا ہے، وہ شاید انجمنیں بھی نہ انجام دے سکیں ۔ اگر ایسا ہوتا تو جو کام حضرت موصوف نے کیا ہے، وہ کب کا ہو چکا ہوتا، اسے تو صرف توفیقِ باری تعالیٰ کا کرشمہ ہی کہنا چاہیے کہ وہ جب کوئی کام لینا چاہتا ہے تو اس کام کے لیے رجالِ کار بھی پیدا کر دیتا ہے۔ اگر قدرت نے کسی دور میں محدثین و روات وغیرہم کے تراجم لکھنے کے لیے امام ذہبی جیسا مورخ پیدا کیا تو اس دور میں اہلِ حدیث کے بالخصوص اور دیگر حضرات کے بالعموم تراجم و حالات کے لیے حضرت موصوف ممدوح کو پیدا کیا، اور پھر اُن کو اسی قسم کے شوق و جذبے کے ساتھ ہمتِ مرداں اور حفظ و اتقان سے بھی نوازا کہ اُنھوں نے اس دُھن میں یوں شب و روز صرف کیے کہ اپنے آپ پر نہ حالات کو مسلط ہونے دیا نہ مصروفیات کو آڑے سمجھا، مرض و نقاہت کو بار خاطر سمجھا نہ کبھی نتائج و عواقب کی پروا کی، بس رضائے الٰہی کے لیے اس سفر پر تو کل علی اللہ چلے تو چلتے ہی گئے۔ بلاشبہہ حضرت موصوف مرحوم کو مرکزی جمعیت اہلِ حدیث پاکستان کے دفتر میں خدمت انجام دینے کی بنا پر بہت سے مسلکی و ملکی اکابر و زعما سے ملنے کا موقع ملا، مگر صرف ایسے مواقع کا میسر آنا ہی کافی نہیں ، کیوں کہ اور بھی بہت سے حضرات ایسے ہیں ، جن کو کسی نہ کسی ایسے حوالے سے اکابر سے ملنے اور قریب سے دیکھنے کا موقع ملا، مگر اس صحبت و قربت سے جو فائدہ حضرت موصوف مرحوم نے اُٹھایا اور پھر اس کو آگے پہنچایا، وہ صرف آپ ہی کا نصیب بنا۔ یوں محسوس ہوتا ہے کہ وہ بدء الامر ہی سے یہ احساس اور شعور رکھتے تھے یا قسامِ ازل نے طبعی طور پر ان میں یہ داعیہ پیدا کر دیا تھا کہ وہ جس شخصیت کو پہلے ہی مرحلہ میں دیکھتے تو اس کا مکمل خاکہ ذہن میں یوں بٹھا لیتے کہ ایک امانت سپرد ہو رہی ہے، جسے بالآخر ’’إلی أھلھا‘‘ کے طور پر آیندہ نسل کے سپرد کرنا ہے۔ ہمارے خیال میں اس دور پُرفتن میں دوسروں کی موت سے زندگی پانے کا فن تو بہت لوگوں کو آتا ہے اور وہ اس کا مظاہرہ بھی کرتے ہیں ، مگر خود مر کر دوسروں کو حیاتِ جاوداں دینے کا فن کوئی ہمارے ممدوح مرحوم سے سیکھے۔ راقم الحروف تو موصوف کے اس کارنامے کی بنا پر عموماً کہتا ہے کہ آج بھی طلبہ کو نہ صرف یہ کہ بزرگوں کی لقا و صحبت اور زیارت کو سعادت سمجھ کر ان کا متلاشی رہنا چاہیے، بلکہ ان کی زیارت کرتے اور صحبت پاتے وقت حضرت |
Book Name | ارمغان مورخ اہل حدیث مولانا محمد اسحاق بھٹی |
Writer | حمید اللہ عزیز |
Publisher | ادارہ تفہیم الاسلام احمدپورشرقیہ، بہاول پور/ دار ابی الطیب، گوجرانوالہ |
Publish Year | مارچ 2016ء |
Translator | |
Volume | |
Number of Pages | 924 |
Introduction |