موصوف کی نظر ہی سے دیکھنا اور اسی تصور سے ضبط کرنا چاہیے کہ شاید اسی طرح کوئی اور محمد اسحاق بھٹی پیدا ہو پائے۔ وما ذلک علی اللّٰہ بعزیز۔ راقم الحروف کی خواہش ہی نہیں کوشش بھی ہوتی ہے کہ اکابر علما و فضلا کی زیارت و لقا کی سعادت حاصل کی جائے اور یہ کہ ممکن ہو تو وہ غریب خانے کو بھی اپنے قدوم میمنت لزوم سے بھی نوازیں ۔ چنانچہ حضرت مولانا بھٹی رحمہ اللہ سے بھی کئی مرتبہ درخواست کی کہ وہ غریب خانے پر تشریف لائیں ، مگر اپنی مصروفیات کی بنا پر شاید ان کے لیے ایسا کرنا ممکن نہ ہو سکا۔ موصوف نے علما کے تراجم پر مبنی جتنی کتب لکھی ہیں ، ان کا انداز یہ ہوتا تھا کہ صاحبِ ترجمہ سے خط کے ذریعے یا بالمشافہہ معلومات لیتے اور مزید اضافوں سے شامل کتاب کر لیتے، اس سلسلے میں اُنھوں نے راقم الحروف سے بھی متعدد بار ملتے وقت بھی اور فون کرکے حتی کہ خط لکھ کر بھی توجہ دلائی، لیکن افسوس میں ایسا نہ کر سکا، جس کا پسِ منظر یہ ہوا کہ میں نے ان سے یہ شرط کہہ رکھی تھی کہ جب تک آپ غریب خانہ کو اپنے قدوم میمنت لزوم سے نہیں نوازتے، میں اپنے متعلق کچھ بھی لکھ کر نہیں دوں گا، بلکہ کئی مرتبہ میں نے ان سے مزاحاً کہا بھی کہ آپ کے چلے جانے کے بعد آپ کی کتب کا قاری محسوس کرے گا اور ضرور سوال اُٹھائے گا کہ بھٹی صاحب نے برق التوحیدی پر کچھ کیوں نہیں لکھا؟ اس کا جواب آپ تو نہیں دے سکیں گے اور خود قاری کیا جواب تراشتا ہے یا کوئی اسے کیا جواب دیتا ہے مستقبل ہی بتائے گا، لیکن یہ بات اپنی جگہ درست ہے کہ علما کے تراجم لکھنے کا آپ نے جو بھی معیار مقرر رکھا ہے، برق التوحیدی اس پر پورا اُترتا ہے اور ایسا بھی کہنا ممکن نہیں کہ آپ سے میری ملاقات نہ ہوئی ہو۔ کیوں آپ نے کئی جگہ اپنی کتابوں میں میرا ذکر بھی کیا ہے۔ میری کتب پر تقاریظ و تبصرے بھی لکھے ہیں تو اس کا جواب ان کے پاس یہی ہوتا کہ پھر آپ لکھ دیں اور میرے بڑھاپے، مصروفیات یا مرض کا عذر قبول کر لیں ۔ لیکن سچی بات یہ ہے کہ مجھے ایسا کرنا چاہیے تھا، لیکن اس وجہ سے نہ کر سکا کہ مجھے یہ تصور ہی نہ تھا کہ بھٹی صاحب اس قدر جلد ہمیں داغِ مفارقت دے جائیں گے اور میرے غریب خانہ کو اپنے قدوم میمنت لزوم سے نوازے بغیر روٹھ جائیں گے۔ چنانچہ مجھے اس پر تو کوئی افسوس نہیں کہ اپنی کتبِ تراجم میں مجھے کیوں نہ جگہ دے سکے، البتہ یہ حسرت ضرور باقی ہے کہ میں ان کی ذات کو اپنے غریب خانہ پر قدم رنجا ہوتے نہ دیکھ سکا اور اُن کے حکم کی تعمیل بھی نہ کر سکا۔ اب ان کا تشریف لانا تو محال ہے، البتہ ہم نے ہی اُن کے پاس جانا ہے کہ وہ بڑے تھے اور رحمتِ باری سے اُمید ہے کہ وہ آخرت میں بھی بڑے ہی ہوں گے تو ادب یہی ہے کہ چھوٹے بڑوں کے در پر حاضری دیں ۔ سو جس طرح دنیا میں ان کی بڑائی کے اعتراف میں ان کے در دولت پر حاضری کا موقع ملتا رہا اور مجالسِ اکابر میں ان کی زیارت ہوتی رہی، اللہ تعالیٰ اسی طرح اب بھی بڑوں کی مجلسِ علیین میں ان کی زیارت نصیب فرمائے اور غرفہ ہائے جنت میں ان کے |
Book Name | ارمغان مورخ اہل حدیث مولانا محمد اسحاق بھٹی |
Writer | حمید اللہ عزیز |
Publisher | ادارہ تفہیم الاسلام احمدپورشرقیہ، بہاول پور/ دار ابی الطیب، گوجرانوالہ |
Publish Year | مارچ 2016ء |
Translator | |
Volume | |
Number of Pages | 924 |
Introduction |