یشکر اللّٰہ ‘‘ پر شاید آخرت میں تو جوابدہ ہونا پڑے۔ حقیقت ہے بعض حضرات کے اس اندازِ تحقیق پر تشویش ہوتی ہے تو دل چاہتا ہے کہ بلا ذکر حوالہ جات ہی جو میسر ہو لکھ دیا جائے، مگر پھر کتمانِ علم کی وعید آڑے آتی ہے کہ ہمیں اپنا فرض نبھانا ہے، کوئی اپنا فرض ادا کرتا ہے کہ نہیں ، یہ اس کا مسئلہ ہے ہمارا نہیں ۔ بہرحال بھٹی صاحب مرحوم اس بات کا التزام فرماتے تھے کہ جہاں سے کوئی بات لی، بلا تردد اس ماخذ کو بیان کر دیتے۔ الغرض ہم نے شروع میں عرض کیا تھا کہ مرحوم رسمی القاب و اعزاز کے عقیدتاً ہی نہیں حقیقت میں مصداق تھے کہ اگر محدث العصر حضرت علامہ ارشاد الحق اثری حفظہ اللہ تعالیٰ جیسے اصحابِ علم و فضل نے ان کو ’’ذہبیِ وقت‘‘ کہا ہے تو اس میں کوئی مبالغہ آرائی نہیں ، کیوں کہ بلا خوفِ تردید کہا جا سکتا ہے کہ اکابر اسلاف کی زندگی کے واقعات و حالات جس طرح اپ ٹو ڈیٹ ان کو ازبر تھے، شاید کسی کو نہ ہوں ، اور ان کے حالات اور خدمات کو بیان کرنے میں یہ پہلو بڑا ہی اہم ہے کہ اُنھوں نے تمام مکاتبِ فکر اور مسالکِ نظر کے علما و زعما کا بڑی فراخ دلی سے ذکر کیا ہے اور سب کو ان کا جائز مقام دینے میں کوئی بخل نہیں کیا۔ اُنھوں نے ’’فقہائے ہند‘‘ سے لے کر اپنی آخری کتاب، بلکہ کتاب زندگی کے لف ہونے تک اس امتیاز کا دامن ہاتھ سے نہیں چھوڑا۔ بلاشبہہ اُنھوں نے اس پہلو میں علمائے اہلِ حدیث کا مختلف عنوانات سے تذکرہ کیا ہے، جو ان کا حق بلکہ فرض تھا، جسے ادا کیا گیا، جس پر وہ پوری جماعت اور اصحابِ مسلک کے شکریے کے حق دار ہیں کہ وہ ہمارے محسن ہیں ، مگر جہاں دیگر حضرات کا ذکر ہے وہ بذاتِ خود ایک اہم کارنامہ ہی نہیں ، بلکہ ان کے حلقۂ عقیدت سے تعلق رکھنے اور لکھنے والوں پر بھی ان کا احسان ہے کہ ان حضرات کو نہ صرف ایک راہ دکھائی، بلکہ بہت حد تک آسانی بھی پیدا کر دی۔ حضرت مولانا محمد اسحاق بھٹی رحمہ اللہ اگرچہ بہت سے روزناموں اور ہفتہ روزوں یا ماہناموں میں تسلسل سے ایک عرصہ تک بلکہ تاحین حیات لکھتے رہے اور مختلف جرائد کے ایڈیٹر بھی رہے، مگر ایک مصنف و مترجم کے حوالے سے انھیں شہرت ’’الفہرست لابن ندیم‘‘ کے ترجمہ اور ’’فقہائے ہند‘‘ سے ملی، پھر کیا تھا کہ ان کا اشہبِ قلم سیلِ رواں کی طرح بہنے لگا اور دیکھتے ہی دیکھتے نہایت وقیع و وسیع تقریباً نصف صد سے زائد تصانیف منصہ شہود پر آگئیں اور لطف یہ کہ ہر کتاب بظاہر اگر چہ ایک کتاب ہی ہے، لیکن اپنے جامع مندرجات کے اعتبار سے وہ کئی کتابوں سے نہ صرف مستغنی کرتی ہے، بلکہ کئی کتابوں کا مصدر و ماخذ بھی بنتی ہے۔ چنانچہ ان کی تصانیف کے تناظر میں اگر انھیں ’’صاحبِ طرز ادیب‘‘ کہا گیا ہے تو یہ محض روایتی لقب نہیں ، بلکہ حقیقت کا آئینہ دار ہے کہ اُنھوں نے تراجم کی صورت میں جو تاریخ مرتب کی ہے، وہ اگرچہ ایک ایک فرد سے معنون ہے، لیکن ایک ایک فرد کی زندگی میں نا معلوم کتنی داستانوں کو سمو دیا گیا ہے، جس طرح ممدوح مرحوم ایک شخص کی زندگی کا احاطہ کرتے ہیں تو معلوم ہوتا ہے کہ وہ کئی علاقوں ، کئی افراد کے مختلف گوشوں کی یوں نقاب کشائی کرتے چلے جاتے ہیں کہ قاری نہ صرف لذت و لطف میں گم ہو جاتا ہے، بلکہ وہ ایک وقت میں کئی منظر دیکھ رہا ہوتا ہے۔ یہ |
Book Name | ارمغان مورخ اہل حدیث مولانا محمد اسحاق بھٹی |
Writer | حمید اللہ عزیز |
Publisher | ادارہ تفہیم الاسلام احمدپورشرقیہ، بہاول پور/ دار ابی الطیب، گوجرانوالہ |
Publish Year | مارچ 2016ء |
Translator | |
Volume | |
Number of Pages | 924 |
Introduction |