ایک روز میں نے مذاق میں کہا کہ آپ نے بے شمار افراد کے بارے میں لکھا، لیکن آپ کے بارے میں کوئی نہیں لکھے گا۔ پھر میں نے خود کہا کہ بے فکر رہیں ، میں آپ کے بارے میں لکھوں گا۔ اس پر بہت ہنسے۔ پھر عارف جاوید محمدی صاحب نے ان سے کہا کہ آپ اپنی خود نوشت تحریر کریں اور یوں ’’گزر گئی گزران‘‘ منظرِ عام پر آ گئی۔ شاید ان کے ذہن کے کسی گوشے میں ہم لوگوں کی ’’استعداد کار‘‘ رہی ہو گی کہ ہم لوگ واقعی ان کے بارے میں یا سوانح حیات نہیں لکھیں گے، سو انھوں نے ہمارا یہ قرض بھی خود ہی ادا کر دیا اور اپنی سوانح حیات ’’گزر گئی گزران‘‘ لکھ گئے۔ ان کے مزاج میں اس قدر وسعت تھی کہ آپ اندازہ نہیں کر سکتے۔ جن دنوں ’’ ہفت اقلیم‘‘ لکھی جا رہی تھی، ان دنوں کا ذکرہے کہ ان کے مضامین کمپوزنگ کے لیے آ رہے تھے۔حضرت علامہ احسان الٰہی ظہیر شہید رحمہ اللہ کے بارے ان کا مضمون آیا۔ علامہ شہید رحمہ اللہ سے گہرے تعلق کے سبب اس مضمون کا انتظار تھا۔ شاید ہم ’’زیادہ‘‘ کی امید پر تھے، مگرمضمون ہماری امید کے خلاف تھا۔ بعض باتوں کا دُکھ ہوا۔ میں نے بھٹی صاحب رحمہ اللہ کو کئی صفحات پر مشتمل خط لکھا۔ اس میں ان کے مضمون کے بعض مندرجات سے اختلاف کیا اور ان کی بعض عبارات کو نقل کر کے اس کے جواب میں اپنا موقف پیش کیا۔ غالباً بارہ صفحات پر مشتمل خط تھا۔ چند روز بعد تشریف لے آئے۔ میرا خط اور اپنے مضمون کا مسودہ ہاتھ میں تھامے ہوئے اور مسکراتے ہوئے بیٹھ گئے۔ کہنے لگے: ’’اتنی محنت کی تم نے اور اتنا لمبا خط لکھا، جو باتیں غلط تھیں بتا دیتے، میں کاٹ دیتا۔‘‘ نہ ایک لفظ بحث کانہ اپنے موقف پر اصرار۔ نصف صدی کا فرق تھا، ان کا مجھ سے۔ درجنوں کتابیں لکھ چکے تھے۔ کمال کا انکسار تھا ان میں ۔ پھر مجھے کہا کہ علامہ رحمہ اللہ کے بارے میں کچھ لکھ دو، میں اپنے الفاظ میں مضمون کا حصہ بنا دوں گا۔ میں نے لکھ دیا اور انھوں نے مناسب قطع و برید کے بعد شامل کر دیا۔ مکتبہ قدوسیہ نے مولانا محمد اسحاق بھٹی رحمہ اللہ کی گیارہ کتب شائع کیں ، جبکہ ایک کتاب اشاعت و طباعت کے مرحلے میں ہے۔ اب آپ ان کے نام ملاحظہ کریں : (۱)۔نقوشِ عظمتِ رفتہ، (۲)۔بزمِ ارجمنداں ، (۳)۔ ہفت اقلیم،(۴)۔برصغیر میں اہلِ حدیث کی آمد،(۵)۔قافلۂ حدیث، (۶)۔دبستانِ حدیث، (۷)۔گلستانِ حدیث، (۸)۔چمنستانِ حدیث، (۹)۔برصغیر میں اہلِ حدیث خدامِ قرآن، (۱۰)۔مولانا احمد دین گکھڑوی، (۱۱)۔اسلام کی بیٹیاں ، (۱۲)۔بوستانِ حدیث۔ عمر کے اس تفاوت کے باوجود ہماری ان سے دوستی تھی۔ ایسے ہی جیسے کسی پوتے کی اپنے دادا سے بے تحاشا دوستی اور بے تکلفی ہوتی ہے، کچھ ایسا ہی تو رشتہ تھا ان کا اور ہمارا: میں کیا لکھوں جو میرا تمھارا رشتہ ہے وہ محبت کی زباں میں کہیں بھی درج نہیں اور اس سے بھی زیادہ سچی بات یہ ہے کہ میرے سے کہیں زیادہ ان کی محبت عمر فاروق قدوسی سے تھی۔ میں اپنی بے ہنگم مصروفیات کے سبب وقت کم بھی دے پاتا، اس پہ وہ شکوہ کناں بھی رہتے۔ عارف جاوید صاحب سے |
Book Name | ارمغان مورخ اہل حدیث مولانا محمد اسحاق بھٹی |
Writer | حمید اللہ عزیز |
Publisher | ادارہ تفہیم الاسلام احمدپورشرقیہ، بہاول پور/ دار ابی الطیب، گوجرانوالہ |
Publish Year | مارچ 2016ء |
Translator | |
Volume | |
Number of Pages | 924 |
Introduction |