اسحاق بھٹی صاحب رحمہ اللہ فوت ہوئے تو جس طرح پاکستان بھر سے احباب نے مجھ سے آ کر تعزیت کی، تب مجھے یہی لگا کہ لوگوں کو ہمارے ادارے مکتبہ قدوسیہ کی طرف سے حضرت مرحوم کی تاریخی کتب کو سب سے پہلے شائع کرنا نہ صرف یاد ہے، بلکہ وہ اس کے قدر دان بھی ہیں ۔ فجزاہم اللّٰہ أحسن الجزاء۔ اور سچی بات ہے کہ دوسرے احباب کا اس کام میں شرکت کرنا نفع مند بھی ثابت ہوا کہ بھٹی صاحب رحمہ اللہ کا کام وسعت اور سرعت کے ساتھ منظرِ عام پر آیا۔ خدامِ قرآن میں ان احباب کا تذکرہ تھا جن کی خدمات کا محور قرآن کریم تھا۔ اس کے بعد ’’خدماتِ حدیث‘‘ کا سلسلہ شروع ہوا۔ اس سلسلے کی پہلی کتاب ’’قافلۂ حدیث‘‘ تھی۔ اس میں ۲۶ اربابِ علم کا تذکرۃ تھا اور یہ کتاب ۶۴۶ صفحات پر محیط تھی۔ حسبِ سابق یہ کتاب بھی خاصی پسند کی گئی۔ ’’قافلۂ حدیث‘‘ کے بعد اسی سلسلے کی تین مزید کتب ہم نے شائع کیں ، دبستانِ حدیث، گلستانِ حدیث اور چمنستانِ حدیث۔ یوں ’’خدماتِ حدیث‘‘ کے اس سلسلے کی بالترتیب چار کتب شائع ہو چکی ہیں ، جبکہ آخری کتاب ’’بوستانِ حدیث‘‘ کے نام سے بھٹی صاحب رحمہ اللہ مکمل کر چکے تھے۔ کتابت کے مرحلے میں تھی کہ داعیِ اجل کا بلاوا آ گیا اور بھٹی صاحب رحمہ اللہ اپنے رب کے حضور چلے گئے۔ جبکہ متفرق شخصیات کے باب میں ۲۰۰۹ء میں آپ کی تیسری کتاب ’’ ہفت اقلیم‘‘ شائع ہوئی، نام کی مناسبت سے اس میں سات شخصیات کا تذکرہ تھا اور ساتوں اصحاب اپنے اپنے مقام میں صاحبِ اقلیم بھی تھے۔ جبکہ اس سلسلے کی اگلی کتاب ’’محفل دانش منداں ‘‘ بھی لکھی جا چکی تھی۔[1] عمر کے تفاوت کے باوجود بھٹی صاحب رحمہ اللہ سے ہمارا تعلق بے تکلفانہ تھا اور اس کا سبب ان کی بے پناہ شفقت تھی۔ انھوں نے اپنے مزاج پر کبھی ناروا قسم کی بزرگی مسلط نہ کی تھی۔وہ ہمیں بے تکلفانہ ناشر کی ’’شر‘‘ سے متصف کرتے اور کہتے کہ ’’ناشر‘‘ کہا جائے یا ’’پبلشر‘‘ دونوں کے آخر میں ’’شر‘‘ آتا ہے، اور ان کی اس ’’دریافت‘‘ پر ہمیشہ ایک قہقہہ بلند ہوتا۔ ان کی مجلس میں بے جا تکلف کا دور دور تک نشان نہ ہوتا۔ عمدہ مزاج کا خود بھی لطف اٹھاتے اور دوسروں کو بھی بھرپور موقع دیتے۔ فیصل آباد کے رمضان سلفی صاحب نے ان کی شخصیت پر لکھے گئے مقالات کو جمع کرکے ایک کتاب لکھی۔ کتاب میرے پاس طباعت کے واسطے آئی تو رمضان سلفی صاحب کا فون آیا کہ بھٹی صاحب کے نام کے ساتھ ’’مورخ اہلِ حدیث‘‘ ضرور لکھنا ہے۔ میں نے لکھوا دیا۔ ابھی سر ورق کا ڈیزائن بنا تھا تو بھٹی صاحب رحمہ اللہ تشریف لے آئے۔ ’’مورخ اہلِ حدیث‘‘ کا لفظ دیکھ کر کہنے لگے: ’’یار یہ ضرور لکھنا تھا، رہنے دیتے۔‘‘ میں نے بے ساختہ کہا: ’’ٹھیک ہے، مورخ کاٹ کر ’’مورکھ‘‘ کر دیتے ہیں ۔‘‘ بھٹی صاحب رحمہ اللہ کا قہقہہ مجھ سے بلند تھا۔ انھوں نے میرے اس جملے کا بہت مزہ لیا، دیر تک ہنستے رہے اور جملے کی تعریف کرتے رہے، اور ہاں اسی وسیع القلب نے مجھ پر گستاخیِ بزرگاں کا کوئی فتویٰ بھی نہ لگایا۔ |
Book Name | ارمغان مورخ اہل حدیث مولانا محمد اسحاق بھٹی |
Writer | حمید اللہ عزیز |
Publisher | ادارہ تفہیم الاسلام احمدپورشرقیہ، بہاول پور/ دار ابی الطیب، گوجرانوالہ |
Publish Year | مارچ 2016ء |
Translator | |
Volume | |
Number of Pages | 924 |
Introduction |