Maktaba Wahhabi

205 - 924
آئی۔ جس کا نام تھا: ’’برصغیر میں اہلِ حدیث کی آمد‘‘۔ جناب اسحاق بھٹی صاحب رحمہ اللہ نے ادارہ ’’ثقافتِ اسلامیہ‘‘ کی ملازمت کے دنوں میں ایک کتاب لکھی تھی، جس کا نام ’’برصغیر میں اسلام کے اولین نقوش‘‘ تھا۔ ’’اہلِ حدیث کی آمد‘‘ دراصل اس کتاب کا ہی ابتدائی روپ تھا۔ جس میں مناسب قطع و برید اور اضافے کیے گئے تھے۔ یہ کتاب خاصی پسند کی گئی۔ اس کتاب کو آپ اس سلسلے کی تمہید اور مقدمہ کہہ سکتے ہیں ، جو آگے شروع کرنے کا ہمارا ارادہ تھا۔ اس سلسلے کی دوسری کتاب ’’برصغیر میں اہلِ حدیث خدامِ قرآن‘‘ تھی، جو تقریباً سات سو صفحات پر مشتمل نسبتاً طویل کتاب تھی، اس میں ۱۸۵ اصحاب کے تذکرے شامل تھے، جب کتاب لکھی جا رہی تھی تو ایک روز مذاق میں ، میں نے بھٹی صاحب کو کہا کہ آپ لاکھ لکھتے رہیں ، اگر ہم ناشران ان کتب کو شائع ہی نہ کریں تو آپ کیا کر سکتے ہیں تو صرف خدامِ قرآن حروف لکھنے والے تو نہ ہوئے، ناشران بھی تو ہیں ۔ بھٹی صاحب رحمہ اللہ ہنستے ہوئے کہنے لگے، بات تو تمھاری درست ہے کہ ان کتب کو شائع کرنا بھی تو خدمت ہی ہے۔ میں نے تو یہ بات از راہِ تفنن کی تھی، مگر آپ نے اس کو سنجیدہ طور پر لیا اور اپنی کتاب خدامِ قرآن کے آخرمیں چھتیس اہلِ حدیث ناشرین اور اُن کے اداروں کا مختصر تعارف بھی دے دیا۔ جن دنوں خدامِ قرآن شائع ہوئی، ان ہی دنوں میں میری توجہ مکتبہ قدوسیہ کے علاوہ کچھ اور کاروباری امور کی طرف ہو گئی اور بھٹی صاحب رحمہ اللہ کی کتب کی اشاعت میں تاخیر ہونے لگی۔ آپ اتنے زیادہ مروت والے تھے کہ بہت عرصہ مجھ سے اس بابت کوئی شکایت نہیں کی۔ دوسری طرف وہ مسلسل لکھ رہے تھے۔ فطری بات ہے کہ بندہ جب لکھتا ہے تو چاہتا بھی ہے کہ یہ شائع ہو اور میں ایسا کر نہیں پا رہا تھا۔ ایک روز مکتبہ قدوسیہ تشریف لائے۔ ان کو بات کرتے ہوئے جھجک ہو رہی تھی، لمبی تمہید باندھی اور کہنے لگے کہ ’’میری کتب شائع نہیں ہو پا رہیں ، اگر آپ بھائی ناراض نہ ہوں تو کچھ دوسرے ناشرین دلچسپی کا اظہار کر رہے ہیں ، میں ان کو چند کتب دے دوں ۔‘‘ الحمد للہ! میرا مزاج ان معاملات میں بہت کھلا رہا ہے۔ میں نے ان کی ہچکچاہٹ بھری تمہید اور مدعا کو بھرپور ’’انجوائے‘‘ کیا اور یہ کہتے ہوئے کہ ’’جا تجھ کو آزاد کیا۔‘‘ میں نے کہا کہ ’’اس میں ایسی کیا بری بات ہے۔ اگر دوسرے دوست اس نیکی کے کام میں شریک ہونا چاہتے ہیں ، تو مجھے کیا اعتراض ہے۔‘‘ اور سچی بات یہ ہے کہ یہ اعزاز اور خوش نصیبی کہ اللہ نے یہ کام مجھ سے شروع کروایا تویہ میرے لیے ہی خاص رہنا تھا تو بخیلی کس بات کی۔ یقینا سرد اور تاریک راتوں میں اٹھ کر فصل کا بیج لگانا، اس کی راکھی کرنا، بہت محنت طلب کام ہوتا ہے، اس کے لیے حوصلہ مند دل درکار ہوتے ہیں اور جب فصل پک جاتی ہے، اس کو کاٹنے کے لیے وہی راتوں کا شب بیدار کسان سب کو بلاتا ہے کہ آؤ اس کو مل کر کاٹیں ۔ ایسے میں اگر کوئی تنگ دل ہو اور کہے کہ میں نے ہی اس تمام فصل کو کاٹنا ہے تو کبھی فصل خراب بھی ہو جاتی ہے تو میں نے اپنی اس کاشت کو خراب تو نہیں کرنا تھا۔ زندگی صرف منفی پہلوؤں پر مشتمل باتوں کے گرد نہیں گھومتی، اس میں بے شمار مثبت باتیں بھی ہوتی ہیں ، جو دل کو حوصلہ دیتی ہیں ۔ جب
Flag Counter