Maktaba Wahhabi

208 - 924
گاہے گاہے شکایت بھی کرتے، مگر میں ویساکا ویسا ہی رہتا۔ مگر آج ان کا چہرہ آنکھوں کے سامنے ہے۔ وہی شفقت، ویسی ہی محبت، مگر شاید یہ کہتے ہوئے کہ میں تمھیں کہتا تھا کہ تم آتے نہیں ، خیال نہیں کرتے میرا۔ لو اب: ’’ڈھونڈو مجھے چراغِ رخِ زیبا لے کر۔‘‘ ہائے! آج میں سوچ رہا ہوں کہ عمر فاروق قدوسی خوش قسمت نکلے کہ ان کے پاس مسلسل جاتے، ان سے سیکھتے۔ عارف جاوید صاحب حفظہ اللہ بتا رہے تھے کہ بھٹی صاحب رحمہ اللہ کے گھر والے ان کو کہنے لگے کہ اب ان کا جی نہیں لگتا، دل کی بات کسی سے کم ہی کرتے ہیں ۔ صرف جب عمر فاروق قدوسی آتے ہیں ، تب یہ بدلے بدلے لگتے ہیں ، جیسے کسی کو من پسند دوست مدت بعدملے۔ عارف صاحب عمر فاروق سے کہہ رہے تھے کہ وہاں جانے میں سستی نہ کیا کرو۔ کئی برس پرانی بات ہے کہ ایک روز مکتبے پر آئے اور کہنے لگے کہ ’’یار! میں ڈاکٹر فضل الٰہی سے مل کر بہت خوش ہوا ہوں ۔‘‘ چند روز پہلے ڈاکٹر فضل الٰہی صاحب حفظہ اللہ نے مرکز اہلِ حدیث لارنس روڈ پر جمعہ پڑھایا تھا۔ نمازِ جمعہ کے بعد حاضرین ڈاکٹر صاحب کے گرد جمع تھے اور ڈاکٹر صاحب آہستہ آہستہ مسجد سے نکل رہے تھے۔ بھٹی صاحب رحمہ اللہ وہاں جمعہ پڑھنے گئے اور ڈاکٹر صاحب کے گرد اس ’’ہجومِ عاشقاں ‘‘ کا مشاہدہ کر رہے تھے۔ آپ ڈاکٹر صاحب سے ملے۔ ڈاکٹر صاحب نہایت عقیدت و احترام سے پیش آئے، اتنے میں دروازہ آ گیا۔ بھٹی صاحب رحمہ اللہ اپنا جوتا اُٹھانے جھکے۔ ڈاکٹر صاحب تیزی سے آگے بڑھے اوربھٹی صاحب رحمہ اللہ کا جوتا اٹھا لیا۔ لوگ حیران کہ یہ بابا جی کون ہیں کہ اتنی عزت افزائی کر رہے ہیں ان کی ڈاکٹر فضل الٰہی۔ بھٹی صاحب رحمہ اللہ اس بات کو فراموش نہ کر سکے اور ڈاکٹر صاحب کے لیے بہت محبت بھرے الفاظ کہتے رہے۔ جماعتوں میں اکھاڑ پچھاڑ اور گروپ بندی کا سلسلہ پرانا ہے اور ہمہ وقت جاری و ساری رہتا ہے۔ ایک روز دو جماعتوں کے اختلاف کے بارے میں مجھ سے پوچھنے لگے کہ ’’یار ابوبکر یہ کیوں الگ ہو گئے ہیں ؟‘‘ میں نے مذاقاً کہا: ان کو چھوڑیے، اپنی بات کرتے ہیں اور ایک الگ جماعت بناتے ہیں ، آپ امیر بن جائیے گا، میں ناظم اعلیٰ۔ جتنے دن چلیں گے بسم اللہ اور پھر نہ نبھے گی تو الگ ہو جائیں گے۔ پھر ہماری بھی دو الگ الگ جماعتیں بن جائیں گی۔ اور بھٹی صاحب رحمہ اللہ کا ایک قہقہہ بلند ہوا: ’’یار تمھاری تجویز بہت پسند آئی، لیکن فرصت میں یہ کام کرلیں گے۔‘‘ پچھلے برس مجھے ان کے ساتھ سفر کرنے کا بھی موقع ملا۔ سیالکوٹ میں ہمارے مکتبے کی ایک کتاب کی تقریب رونمائی تھی، جس کا اہتمام مولانا محمد علی جانباز کے ادارے جامعہ رحمانیہ نے کیا تھا۔ قاری عبدالرحمان جو مولانا جانباز رحمہ اللہ کے داماد بھی ہیں اور ان کے مدرسے کے ناظم بھی، اور ان کے ساتھ مولانا کے بیٹے عبدالحنان جانباز بھی ہوتے ہیں ۔ دونوں بھٹی صاحب رحمہ اللہ سے نہایت عقیدت کا رشتہ رکھتے ہیں ، انھوں نے بھٹی صاحب رحمہ اللہ کو بھی مدعو کر رکھا تھا۔ قاری عبدالرحمان صاحب نے مجھے کہا کہ آپ نے بھٹی صاحب رحمہ اللہ کو اپنی گاڑی پر لے کر آنا ہے۔
Flag Counter