Maktaba Wahhabi

68 - 108
{ إِذَا جَاء نَصْرُ اللّٰهِ وَالْفَتْحُ } (النصر) ’’ جب اللہ کی مدد آپہنچی اور فتح حاصل ہو گئی۔‘‘ کے متعلق آپ کی کیا رائے ہے ؟ ان میں سے بعض کہنے لگے : ’’ اللہ تعالیٰ نے ہمیں حکم دیاہے کہ ہم اس کی حمد بیان کریں اور استغفار کریں جب اللہ تعالیٰ نے ہمیں فتح دی۔‘‘ اور بعض خاموش رہے ۔ پھر حضرت عمر رضی اللہ عنہ ابن عباس رضی اللہ عنہما سے کہنے لگے : ’’ کیا تم بھی یہی کہتے ہو؟۔ فرمایا : نہیں ۔ فرمایا : پھر تم کیا کہتے ہو؟۔ فرمایا:’’ یہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی اجل ہے ‘جس کے متعلق اللہ تعالیٰ نے ہمیں خبر دی ہے۔‘‘ جب اللہ تعالیٰ کی مدد آ پہنچی، اور فتح سے مراد فتح مکہ ہے ، ایسے ہی یہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی اجل کی علامت ہے، اپنے رب کی حمد و تسبیح بیان کریں اور استغفار کریں ‘ بیشک وہ توبہ قبول کرنے والا ہے ۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ فرمانے لگے :’’ میں ان آیات سے صرف وہی مقصد سمجھتا ہوں جو آپ سمجھتے ہیں ۔‘‘ حضرت عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں : قرآن کے بہترین ترجمان حضرت ابن عباسرضی اللہ عنہ ہیں ۔‘‘ ایک سائل نے حضرت عمر رضی اللہ عنہ سے ایک آیت کے بارے میں پوچھا‘ آپ نے فرمایا: ’’ ابن ِ عباس رضی اللہ عنہما کے پاس جاؤ ، اور ان سے سوال کرو، کیونکہ وہ زندہ رہ جانے والوں میں سے قرآن کے سب سے زیادہ جاننے والے ہیں۔‘‘ حضرت عطاء ( ابن ابی رباح رحمۃ اللہ علیہ ) فرماتے ہیں: ’’ میں نے ابن عباس کی مجلس سے بڑھ کر کسی مجلس کو فقہ میں مکرم نہیں دیکھا‘ اور نہ ہی ان سے بڑھ کرکسی کو خشیت (تقوی) والا دیکھا ہے ۔ آپ کے پاس فقہاء بھی حاضر ہوتے اور اہل قرآن بھی، اوراہل ِ شعر بھی، ان میں سے ہر ایک ایک (علم و معرفت کی )وسیع وادی سے(سیراب ہوکر ) واپس لوٹتا ‘‘۔ ابو وائل کہتے ہیں : ’’ ابن عباس نے ہمیں خطبہ دیا۔ اور وہ موسم حج پر حضرت عثمان رضی اللہ عنہ
Flag Counter